ہر سیاستدان کو ہر مسئلے پر کچھ نہ کچھ تو کہنا پڑتا ہے خاص طور پر جب اسے الیکٹرانک میڈیا کا کوئی نمائندہ گھیر لے۔ سب سے زیادہ علامہ طاہر القادری بولتے ہیں۔ اتنا زیادہ بولتے ہیں کہ دوسرے بولنے والوں کا بھی حق غصب کر لیتے ہیں۔ بس ’’Tissues‘‘ کے کچھ ڈبے زیادہ خرچ ہو جاتے ہیں۔
’’ناتجربہ کار سیاستدان عمران خان؟‘‘
میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز کے ایک ممتاز رہنما سید خورشید احمد کی سیاسی بصیرت اور ان کا مدبرانہ سیاسی بیانات کا بہت مداح ہوں لیکن اپنی کم مائیگی کے باعث ان کے تازہ ترین بیان کا مفہوم سمجھ نہیں پا رہا جس میں شاہ صاحب نے فرمایا کہ ’’عمران خان ناتجربہ کار سیاستدان ہیں۔ انہیں عوام کے مسائل کا علم نہیں ہے۔ ان کے گرد ناچنے اور گانے والے ایسے لوگ ہیں جو بڑے گھروں میں پیدا ہوئے‘‘۔
اگر عمران خان واقعی ناتجربہ کار سیاستدان ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے فی الحال خان صاحب کی عمر صرف 62 سال ہے۔ جب بلاول بھٹو زرداری کی عمر کے ہو جائیں گے تو تجربہ کار بھی ہو جائیں گے اور انہیں ان کے مسائل سے آگاہی بھی ہو جائے گی۔ جہاں تک بڑے گھروں میں پیدا ہونے والے ناچنے اور گانے والوں کا تعلق ہے وہ تو قدرت کی طرف سے انہیں سہولت دی گئی ہوتی ہے کیونکہ چھوٹے گھروں میں پیدا ہونے والوں کے لئے ناچنے کے لئے ’’آنگن‘‘ ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو وہ بھی ٹیڑھا۔ تبھی تو قواعد و ضوابط کے مطابق نہ ناچنے والوں کے بارے میں طنزاً کہا جاتا ہے کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ بعض بے مروت محبوب بھی بے رخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عاشقوں کو ڈانٹتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ…؎
’’ہمارے انگن میں‘ تمہارا کیا کام ہے؟‘‘
سید خورشید احمد شاہ نے پھر بھی وضعداری دکھائی ہے خان صاحب سے اس طرح کی بے مروتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسے کہتے ہیں۔ ’’شرافت کی سیاست!‘‘
قربانی اور حجاج کی دعائیں؟
ابراہیم ذوق آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار سے وابستہ تھے اور مرزا غالب دربار سے باہر دونوں استاد شاعروں میں چپقلش رہتی تھی۔ جس طرح ایک ہی دور کے طالبعلم سیاسی لیڈروں سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد اور موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید میں رہتی ہے۔ شاعر نے دونوں اصحاب کے بارے میں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ…؎
’’ایک تم اور لاکھ غمزہ و ناز
بزم میں چپقلش‘ بلا کی ہے‘‘
جناب عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کی قیادت میں اسلام آباد میں دھرنے شروع ہوئے تو شیخ رشید احمد نے ہر نیوز چینل پر گرجنا شروع کر دیا کہ ’’عید قربان سے پہلے ہی قربانی ہو جائے گی!‘‘ مقصد یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کی فرمائش پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے! لیکن شیخ صاحب کی یہ پیشن گوئی باکس آفس پر فلاپ ہوئی۔ 15 اکتوبر کو میں نے سرکاری ٹی وی پر جناب پرویز کی باچھیں کھلنے کے مناظر دیکھے جب وہ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کی پریس کانفرنس کو اچک کر فرما رہے تھے ’’حجاج کرام نے اللہ اور رسولؐ کے گھر جا کر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت قائم رہنے کی دعائیں مانگی تھیں‘‘۔
مسلم لیگ ن کی حکومت کی قربانی تو واقعی نہیں ہوئی اب تو ایک ہی طریقہ ہے کہ شیخ صاحب اپنی عوامی مسلم لیگ کے کارکنوں کو ایک ایک حاجی اور ایک ایک حاجہ (حجن) کے گھر بھجوائیں اور ہدایت کریں کہ وہ جناب پرویز رشید کے بیان کی تردید لکھوا کر لائیں۔ اصولی طور پر وزیر اعظم کی حکومت کے استحکام کی دعائیں سرکاری خرچ پر حج پر جانے والے خواتین و حضرات کو مانگنا چاہیے تھیں یا صدر ممنون حسین وفاقی وزراء اور اپنے خاندانوں سمیت عمرے کی سعادت حاصل کرنے والے دیگر اصحاب کو۔
ہمارے ملک کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا بہت ہی خوش قسمت ہیں وزیر اعظم صاحب کہ سردار محمد یوسف اور سینیٹر پرویز رشید صاحب نے حجاج کرام کے دل موہ لئے اور ان سب کو اپنے قائد کے اقتدار کی تکمیل کی دعائیں کرنے پر آمادہ کر لیا وگرنہ مسلم لیگ کے ارکان پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی تو جناب وزیر اعظم کی تصویر سامنے رکھ کر یہی ورد کرتے رہتے ہیں کہ…؎
’’سب کچھ خدا سے مانگ لیا‘ تجھ کو مانگ کر‘‘
اب خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ جناب وزیر اعظم کو عید قربان سے پہلے قربان ہونے سے بچانے کے لئے دعائیں کرنے والوں کو کم از کم ایک ایک لیپ ٹاپ تو بھجوا دیں!
’’محب وطن طالبان‘‘ داعش میں؟
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد اور کرم ایجنسی اورکرزئی ایجنسی، ہنگو اور پشاور کے کمانڈروں نے خودکش دہشت گردوں کی عالمی تنظیم ’’داعش‘‘ میں شمولیت کا اعلان کر دیا ایک نجی ٹی وی کے مطابق شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ ’’ہم داعش کی جانب سے خلیفہ مقرر کئے جانے والے ابوبکر البغدادی کی بیعت کر رہے ہیں اور اب ہم انہی کے احکامات کو مانیں گے‘‘۔ شاہد اللہ شاہد نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ بیعت پوری تحریک طالبان پاکستان یا اس کے امیر فضل اللہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان کی اور تحریک طالبان کے کمانڈروں کی جانب سے ہے‘‘۔
ایک اور خبر کے مطابق محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے پاکستان رینجرز اور سندھ پولیس کو لکھے جانے والے 9 اکتوبر 2014ء کے خط میں کہا گیا ہے کہ ’’کہوٹہ ڈسٹرکٹ راولپنڈی کے ایک شخص عابد کہوٹ کی ازبکستان کے ایک شہری ولیدالامہ سے ملاقات ہوئی ہے اور اس نے‘ عابد کہوٹ کو پاکستان میں داعش کا سربراہ بننے کی پیشکش کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کو داعش میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا ہے اور کہا ہے کہ ’’پاکستان میں داعش کے مرکزی دفتر کے لئے مناسب ترین جگہ رائے ونڈ کے قریب ہونا چاہئیے۔ رائے ونڈ‘ جہاں وزیر اعظم کا گھر ہے اور جہاں ہر سال منعقد ہونے والے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کے لئے دنیا بھر سے مسلمان شریک ہوتے ہیں۔
اب دہشت گردوں سے نمٹنے کا معاملہ محض پاکستان رینجرز اور سندھ پولیس تک محدود نہیں رہا بلکہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی توجہ کا مستحق ہے۔ اس سے قبل 10 اور 11 اکتوبر کی درمیانی شب کی کارروائی میں پاکستان رینجرز نے کراچی میں غوثیہ کالونی سے سنٹرل جیل تک کھودی جانے والی سرنگ کو پکڑ کر جیل سے خطرناک دہشت گردوں کو رہا کرانے کا منصوبہ ناکام بنا دیا ہے۔ سندھ پولیس اور جیل کے افسروں اور عملے کو بعد ازاں خبر ملی۔ اصولی طور پر دہشت گردی کے اس منصوبے کا انکشاف ایک طرف پاکستان رینجرز کی کامیابی اور دوسری طرف سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی، خاص طور پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی ناکامی ہے۔ سندھ میں ہر روز ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے لیکن ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ کے لئے وفاقی حکومت کو سب کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے (بعض مذہبی جماعتوں کے دبائوں میں آکر)پہلے ستمبر 2013ء میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان اور دہشت گردوں کے دوسرے گروپوں کو ہمارے اپنے لوگ اور ریاست پاکستان کے ’’Stake Holders‘‘ تسلیم کیا اور اس کے بعد جب ’’طالبان کے باپ‘‘ مولانا سمیع الحق نے 15 فروری 2014ء کو اپنی صدارت میں 32 مذہبی جماعتوں کے قائدین اور 2 سو سے زیادہ ’’جید علما‘‘ کی علما و مشائخ کانفرنس میں یہ تسلیم کرا لیا کہ ’’طالبان پاکستان کے بیٹے ہیں‘‘ تو یہ وزیر اعظم نواز شریف کی بہت بڑی کمزوری تھی۔ رہی سہی کسر ہمارے دبنگ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ’’محب وطن طالبان‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی۔
جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کے افسران اور جوان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ’’ضرب العضب‘‘ کو کامیابی کی طرف لے جا رہے ہیں تو پھر کراچی اور پنجاب میں پاک فوج کی خدمات کیوں حاصل نہیں کی جاتیں؟ سانپ کو زخمی کرنا یا فرار کا موقع دینا کافی نہیں ہوتا اور نہ ہی زہریلے سانپ پالنے والوں کو کھلا چھوڑنا۔ آپریشن ضرب العضب پاکستان کے نظریاتی دشمنوں کے خلاف بھی ہو ’’محب وطن طالبان‘‘ کی داعش میں شمولیت اور رائے ونڈ میں داعش کے ہیں کوارٹر کے قیام کی خبروں کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38