بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے (القرآن)”حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا چنانچہ میں نے آپ کو ڈھونڈا تو میرا ہاتھ آپ کے پاو¿ں کے تلووں مبارک پر پڑا، جب کہ آپ مسجد میں سجدے میں پڑے گڑ گڑا رہے تھے اور آپ کہہ رہے تھے، اے اللہ! میں تیرے غصے سے تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں، تیرے عذاب سے تیری بخشش کی پناہ چاہتا ہوں اور میں تجھ سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔ میں تیری تعریف کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ، تو ویسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی تعریف کی ہے۔“۔۔۔ یہ التجا گڑ گڑا کر وہ ہستی کر رہی تھیں جن کے لئے کائنات بنائی گئی۔ جن کو اللہ کا حبیب کہا جاتا ہے۔ جن کو بعد از خدا بزرگ تو ای قصہ مختصر کہا جاتا ہے۔ ان کی یہ حالت ہو جائے اور کہاں گناہگار انسان اپنے گناہوں اور غلطیوں پر ڈھٹائی دکھائے؟ خود کو ہر جرم الزام قصور غلطی سے بالا سمجھے ؟ جزا و سزا دینے یا دلوانے کا حقدار فقط پروردگار کی ذات پاک ہے۔حکم خدا کے بغیر کس کی جرات کہ کوئی کسی کو سزا دے سکے ؟
سعدی رحمتہ اللہ علیہ حکایت میں ایک سپاہی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ اس بدبخت نے ایک فقیر کے سر پر پتھر ماردیا۔ فقیر میں بدلہ لینے کی سکت نہ تھی اس لئے فقیر نے وہی پتھر پکڑکر محفوظ کرلیا۔
ایک دن بادشاہ کو اس سپاہی پر غصہ آیااور اس نے اسی سپاہی کو ایک کنوئیں میں قید کردیا۔ فقیر اس کنوئیں پر گیا اور اس سپاہی کو پتھرمارا۔
سپاہی نے پوچھاکہ تو کون ہے اور مجھے پتھر کیوں مارتا ہے ؟
فقیر نے کہا کہ میں وہی فقیر ہوں جس کے سر پر تونے فلاں وقت میں یہ پتھر مارا تھا۔ سپاہی نے کہا کہ پھر توا تنا عرصہ کدھررہا ؟ فقیر نے کہا کہ مجھ میں سکت نہ تھی کہ میں اس وقت تجھے مارتا مگر آج مجھے موقع ملا ہے اس لئے میں نے اس دن کا بدلہ لے لیا۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں “ پس جب تم کسی نالائق کو منصب کا اہل نہ پاتے ہوئے بھی منصب پر فائزدیکھو تو خاموش رہو کیونکہ داناو¿ں نے ایسے موقع پر خاموش رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ پس اس وقت تک صبر سے کام لو جب تک وقت اس کے ہاتھ نہ باندھ دے اور پھر جب وہ وقت کی گرفت میں آجائے تو پھر چاہے تم اس کا بھیجا ہی کیوں نہ نکالنا چاہو اس وقت نکال لو۔حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کررہے ہیں کہ اللہ کی پکڑسے چھڑانے والا کوئی نہیں ہوتا پس اس وقت سے ڈرو جب اللہ عزوجل تمہیں رسوا کردے اوراللہ عزوجل کی جانب سے دی گئی مہلت کو غنیمت جانو۔اس ملک پر اصل حکمرانی کرپشن کی رہی ہے۔ کبھی منہ بنداور کبھی مٹھی گرم۔اس نظام حکومت کو کبھی جمہوریت کبھی آمریت کہا جاتا ہے۔پاکستانیوں نے خالص جمہوریت دیکھی ہی نہیں۔ ہم نے امریکہ میں دیکھی ہے۔ ہر چار سال بعد سیاسی جماعت کو اس کے ایجنڈا کی بنیاد پر ووٹ بھی دیتے ہیں۔ افراد آتے اور چلے جاتے ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت کسی ایک فرد سے منسوب نہیں۔ بھٹو نے اتنا ضرور کیا کہ اپنی پارٹی کا نام عوام سے منسوب کر دیا۔ پیپلز پارٹی۔ لیکن جس جماعت کا نام ہی فرد واحدسے منسوب ہو اس کے اندر یا باہر جمہوریت کا تصور کیوں کرکیا جا سکتا۔ ون مین شو اداروں سے تصادم پر بضد ہے۔ فوج اور عدلیہ سے کھلم کھلا لڑائی جاری ہے۔سول قیادتیں نام کی ہیں ورنہ ان کا سیاسی پس منظر جی ایچ کیو سے وابستہ ہے۔” سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے وزیراعظم کہتے ہیں کہ “انہیں سزا دی نہیں دلائی جا رہی ہے۔۔۔ اشاروں سے باتیں کی جاتی ہیں جبکہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ کے حکم اور مرضی کے خلاف نہ کوئی کسی کو سزا دے سکتا ہے اور نہ سزا دلا سکتا ہے۔ لہجہ میں انکساری پیدا کرنی چاہئے ورنہ وقت بڑا بے رحم ہے۔ یہ بے رحم وقت بڑے بڑے سورماﺅں، شہنشاﺅں، آقاﺅں کو لمحوں میں نیست و نابود کر تا ہوا گزر جاتا ہے۔بے رحم وقت کو کوئی نہیں روک سکا تو پاکستان کی کسی اتھارٹی کی کیا حیثیت کہ وقت کے فیصلے بدل سکے ؟
٭٭٭٭٭