تاریخ تو عابد شیر علی نے بھی بنائی ہے۔ نواز شریف نے تاریخ نہیں بنائی۔ وہ تو عدالت میں اپنی تاریخ پر پیش ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کے لئے یہ کم بات نہیں ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں۔ عابد شیر علی نے امامت کرائی۔ ان کی امامت میں سات آٹھ آدمیوں نے نماز ادا کی۔ عابد شیر علی جو کچھ ہیں جس طرح کے سیاستدان ہیں سب جانتے ہیں۔ سیاستدان جو ممبر اسمبلی بنتے ہیں پھر وزیر شذیر اور چھوٹے وزیر یعنی وزیر مملکت بھی بن جائیں۔ تب بھی وہ جو ہیں وہی رہتے ہیں۔ بات موجودہ اسمبلی تک محدود نہیں ہے۔ اب تک بننے والی ساری اسمبلیوں میں اسی طرح کے لوگ ہی منتخب ہوتے ہیں۔ وہ جس طرح منتخب ہوتے ہیں لوگ جانتے ہیں۔ ذمہ داری عوام پر عائد کر دی جاتی ہے کہ انہوں نے ہمیں منتخب کیا ہے۔ انہیں نجانے کون منتخب کرتا ہے۔ ایک جیسے لوگ بار بار آ جاتے ہیں۔
اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھیں۔ ان میں سے کوئی نہیں جس نے ایک کتاب بھی پوری پڑھ رکھی ہو۔ کتاب اور خواب سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ بس قانون پسند نہیں ہوتے۔ اس طرح کی بات بہت اچھے مقرر اور پڑھے لکھے ایڈیشنل آئی جی ذوالفقار چیمہ نے اولڈ راوین کی ایک تقریب میں کہی ایس ایم ظفر قانون پسند ہیں اور نسیم حسن شاہ خاتون پسند ہیں۔ یہ دونوں حضرات محفل میں موجود تھے بلکہ سٹیج پر بیٹھے تھے۔
عابد شیر علی سے ملتے جلتے وزیر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ شہباز شریف کو بلائیں۔ جے آئی ٹی نے فوراً بلا لیا رانا صاحب نے یہ بھی کہا جو شہباز شریف پیشی پر کریں گے لگ پتہ جائے گا۔
نواز شریف کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لئے مختلف باتیں کی جا رہی ہیں۔ طلال چودھری اسے قانون پسندی کہہ رہے ہیں۔ صداقت عباسی کہتے ہیں کہ نواز شریف کرسی اور دولت بچانے کے لئے پیش ہوئے۔ بہرحال یہ بڑی بات ہے کہ ہیڈ آف گورنمنٹ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ جے آئی ٹی پوری طرح عدالت بھی نہیں ہے۔ نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہوتے تو کوئی ان کا کیا کر لیتا۔ جو کریڈٹ بنتا ہے اس کے لئے اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔
نواز شریف کی پیشی پر اتنی بات نہیں ہو رہی ہے۔ پیشی کے بعد نواز شریف نے جو تقریر کی اس کے لئے زیادہ باتیں آ رہی ہیں۔ نواز شریف اکتائے ہوئے لگ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس جے آئی ٹی سے بڑی جے آئی ٹی بھی ہے اور وہ عوام کی جے آئی ٹی ہے۔ یہ کوئی پیغام جے آئی ٹی کے لئے ہے۔ یہ پیغام جے آئی ٹی کے علاوہ سپریم کورٹ کے لئے بھی ہے۔ تو کیا فیصلہ نواز شریف کے خلاف آ رہا ہے؟ ان کے پیچھے کھڑے حمزہ شہباز بھی بہت بور اور سنجیدہ لگ رہے تھے۔ شریف خاندان نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
کچھ لوگ اور عمران خان نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ زیادہ اچھا اور اہم ہے کہ وہ وزیراعظم کے طور پر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ورنہ عام آدمی تو عدالتوں کے احاطے میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔
جے آئی ٹی نے بہرحال نواز شریف کے ساتھ دوسروں سے بہتر سلوک کیا۔ انہیں انتظار نہیں کرایا۔ پیشی میں بھی زیادہ وقت نہیں لگایا گیا۔ ورنہ حسین نواز بیچارے لکڑی کے ایک بنچ پر چھ گھنٹے بیٹھے انتظار کرتے رہے اور پیشی کے لئے بھی کئی گھنٹے لگائے گئے۔
مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کے لئے جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد کہا ہے کہ وہ شیر ہی نہیں شیر دل بھی ہیں۔ یہ تو ٹھیک بات ہے کہ شیر کے سینے میں شیر کا ہی دل ہو گا۔ یہاں کئی گیدڑ بھی شیر بنے پھرتے ہیں اور پاکستانی عوام ان سیاستدانوں کو بھی ماننے پر مجبور ہوتے ہیں یہ بھی کہا مریم نے کہ وہ میرا فخر ہیں۔ ہر بیٹی اپنے والد کے لئے یہی جذبات رکھتی ہے مگر مریم تو وزیراعظم کی بیٹی ہے۔ نواز شریف نے جے آئی ٹی میں بقول مریم نئی تاریخ رقم کی ہے۔ وہ ان سے کہیں کہ عوام کے دکھ دور کریں۔ نواز شریف نہ بھی پیش ہوتے تو عوام کو کچھ فرق نہ پڑتا۔ وہ کچھ کریں عوام کے لئے کریں۔ ان کی زندگی میں آسانی اور آسودگی لائیں۔ انہوں نے خود کہا کہ جے آئی ٹی سے بھی بڑی جے آئی ٹی ہے تو وہ عوام کی جے آئی ٹی ہے اس جے آئی ٹی کے سامنے بھی سرخرو ہوں تو تاریخ بنے۔