گزشتہ روز مجھے اپنے نئے نویلے دوست افتخار سندھو کافون آیا کہ یکم مئی کو ان کی نئی ہاﺅسنگ سوسائٹی میں چھ سو افراد کے لئے روزانہ کی بنیاد پر ایک لنگر کا افتتاح ہو گا۔جو ان کی استطاعت کے مطابق مستقل چلتا رہے گا۔مجھے نوائے وقت کے زمانے کے چیف رپورٹر اور آج کے سیٹھ صحافی الیاس شاکر کا یہ سنہری فلسفہ یاد آیا کہ اسلام تو سیٹھوں اور امرا کا مذہب ہے۔ کوئی غریب صدقہ خیرات نہیں کر سکتا، عمرہ حج نہیں کر سکتا، یہ کام پیسے و الے ہی کر سکتے ہیں۔ مجھے الیاس شاکر سے صرف اتنا اختلاف ہے کہ میرے جیسے بے وسیلہ انسان خیراتی کاموںمیںمصروف سیٹھوں کی خدمات کا تذکرہ کر کے وہی نیکی کما سکتے ہیں جو وہ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر کے کما رہے ہیں، نیکی کی تشہیر بھی نیکی ہے، دیئے سے دیا جلتا ہے، ایک سیٹھ کو نیک کام کرتے دیکھ کر کئی اور سیٹھ بھی یہی راستہ اختیار کر لیتے ہیں ، اس طرح محروم طبقات کی خدمت کرنے والوں کا دائرہ وسیع ہوتا رہتا ہے۔ کسی کو راشن ملنے لگ جاتا ہے، کسی کے تعلیمی ا خراجات کی کفالت ہو جاتی ہے اور کسی کی معذوری کو سہارا میسر آ جاتا ہے، کوئی اپنے علاج کے قابل ہو جاتا ہے۔افتخار سندھو،ملک ریاض اور دوسرے سیٹھ اپنے پلے سے خرچ کرتے ہیں مگر کچھ لوگ دوسروں سے خیرات مانگ کر خیراتی کام کرتے ہیںکسی نے فلاحی کام کرنے ہوں تواس معاشرے میں ارب پتیوں کی کمی نہیں اور ان کے جذبے بھی زندہ ہیں ، عمران خان براہ کرم اپنی حکومت کے خزانے سے ہسپتال بنائیں، سڑکیں بنائیں ، سکول بنائیں۔ اس سرکاری خزانے کو بے مصرف کیوں چھوڑ رکھا ہے۔
عمران خان نے لاہور میں علیم خان کے تعمیر کردہ خصوصی بچوں کے ادارے کاا فتتاح کیا، میںنے ا س تقریب کا نظارہ ٹی وی چینلز پر کیا، نیکی کے ا س منصوبے کا میں مخالف نہیں ہوں۔ علیم خان اپنی گاڑی میں مجھے لے کر اپنے سارے خیراتی ادارے دکھاتے رہے ہیں ، یہ نیکی کمانے کے ادارے ہیںا ور میں اس بناپر علیم خان کا مداح ہوں۔
خصوصی بچے بھی اسی طرح معاشرے کے لئے اہم ہوتے ہیں جیسے عام صحتمند بچے۔ جدید ممالک میں خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام سرکاری سطح پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میںحکومتیں عام انسانوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے میں ہی ناکام رہتی ہیں‘ وہاں معاشرے کے خصوصی افراد یکسر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ مال روڈ پر دو مرتبہ نابینا نوجوانوں کی پولیس کے ہاتھوں پٹائی ہو چکی ہے۔ ایسے میں وہی مخیر حضرات آگے بڑھتے ہیں جنہیں اللہ نے انسانیت کی خدمت کے لئے چنا ہوتا ہے۔ لاہور میں رائزنگ سن ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو خصوصی بچوں کی جدید طرز پر تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ سابق صوبائی وزیر اور مرکزی رہنما تحریک انصاف رائزنگ سن کی برسوں سے مالی معاونت کر رہے ہیں۔ڈیفنس برانچ کے بعد عبدالعلیم خان نے اپنی فا¶نڈیشن کے زیر اہتمام رائزنگ سن انسٹیٹیوٹ کے خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر سہولتوں کیلئے مغل پورہ میں 4کنال اراضی خرید کر اس پر سٹیٹ آف دی آرٹ بلڈنگ کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا جہاں خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے عالمی معیار کے کلاس رومز، ہم نصابی سرگرمیوں کی سہولتیں،آرٹ اینڈ کرافٹ کے علاوہ ہنر مندی کی کلاسز اور بہترین تعلیمی ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ اس ادارے میں خصوصی بچوں کیلئے بہترین سوئمنگ پول بھی بنایا گیا ہے۔ فا¶نڈیشن نے یہ بلڈنگ عبدالعلیم خان کے والد عبدالرحیم خان کے نام سے تعمیر کر کے رائزنگ سن انسٹیٹیوٹ کو تحفہ کے طور پر پیش کی ہے ۔اس ادارے کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اورگزشتہ روز عمران خان نے عبدالعلیم خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول،مسز پروین تواب کے ہمراہ عبدالعلیم خان فا¶نڈیشن کی تعمیر کردہ رائزنگ سن انسٹیٹیو ٹ کی بلڈنگ کا افتتاح کیا۔اپنے خطاب میں عمران خان نے عبدالعلیم خان کو اس نیکی پر زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ لوگ دنیا میں مال کمانے آتے ہیں لیکن انسان کا اصل مقام آخرت ہے جہاں سب نے جانا ہے۔ کم ہی لوگ ایسے ہیں جو آخرت کی فکر کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ ان کا دنیا کا مال و اسباب نہیں جائے گا بلکہ وہ نیکیاں اور وہ صدقہ خیرات کام آئے گا جو وہ دنیا میں کرتے آئے ہیں۔انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے معاشرے ہی خوشحال ہوتے ہیں انسان اور جانوروں میں فرق انسانیت کا ہی ہے دوسروں کیلئے جینا ہی انسانیت کی معراج ہے ہمیں اس عارضی زندگی میں ایسا کام کرنا چاہیے جو ہمیں مرنے کے بعد بھی زندہ رکھے۔
اس وقت معاشرے میں جہاں غربا کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہیں ارب پتیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ان ارب پتی افراد میں سے گنتی کے افراد ایسے ہیں جو اپنے مال کا معقول حصہ صدقہ و خیرات کی نذر کرتے ہیں۔علیم خان کو میں برسوں سے جانتا ہوں۔ اس شخص نے فلاحی کاموں میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ بعض ارب پتی امیر ترین ہونے کے باوجود روحانی طور پر بے چین رہتے ہیں۔ ان کی بے چینی تبھی دور ہوتی ہے جب وہ انسانیت کی خدمت کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ کسی کے لئے سائبان بن کر ہی وہ دراصل ایسی سچی خوشی حاصل کر سکتے ہیں جو بے انتہا دولت کے عوض بھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یہ ادارہ عبدالعلیم خان فا¶نڈیشن کے فلاح عامہ کے کئی ایک منصوبوں میں سے ایک ہے جبکہ یہ فا¶نڈیشن یتیم بچیوں کیلئے اپنا گھر کے نام سے تین کیمپس پہلے ہی کامیابی سے چلا رہی ہے جہاں یتیم بچیوں کو بہترین تعلیمی و تدریسی سہولتیں حاصل ہیں لیکن رائزنگ سن انسٹی ٹیوٹ کے لئے یہ کیمپس خصوصی بچوں کے لئے بنایا گیا ہے۔عبد العلیم خان فاﺅنڈیشن قدرتی آفات میں بھی پیش پیش رہی ہے۔ زلزلے سیلاب یا کسی اور ضرورت کے موقع پر امدادی و فلاحی سرگرمیاں اس فاﺅنڈیشن کا اہم اقدام ہے۔ضرورت مندوں کے لئے مفت دسترخوان‘ جہیز کی فراہمی اور ماہانہ بنیادوں پر غربا میں راشن کی تقسیم اس فاﺅنڈیشن کی اہم خصوصیات ہیں۔ معذوروں کے لئے ویل چیئرزاور مستحقین کی مالی امداد کی جاتی ہے۔رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔اس ماہ مبارک میں افطار و سحر کا بندوبست کرنے کے علاوہ رمضان پیکیج کے تحت 20ہزار افراد کو راشن دیا جاتا ہے جبکہ مریضوں کے علاج معالجے کے لئے گھرکی ٹرسٹ‘ انمول ہسپتال لاہور‘ سر آغا خان کراچی اور دیگر اداروں میں مریضوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
رائزنگ سن کے بانی ڈاکٹر عبدالتواب انتہائی شفیق اور ملنسار انسان تھے۔ گزشتہ برس ان کا انتقال ہوا تو رائزنگ سن کے ساڑھے چھ سو خصوصی بچے اپنے ”انکل“ سے محروم ہو گئے۔ یہ بچے پیار سے انہیں انکل کہتے تھے ۔ اب بیگم عبدالتواب اور ان کے بیٹے ڈاکٹر شہزاد جو کارڈک سرجن ہیں‘ انتظامی معاملات کو چلا رہے ہیں۔گورنر خالد مقبول نے بھی اپنے دور میں اس ادارے کے لئے ہر ممکن سہولتیں فراہم کیں۔ اس کارخیر میں شریک ہو کر انہوں نے اپنا رتبہ خدا کے ہاں بہت بلند کر لیا ہے۔
کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں کہ انسانی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں پر دل کھول کر خرچ کرنے والے ہی اصل امیر ہوتے ہیں ۔ تقریب میں عمران خان نے اپنا تجربہ بھی شیئر کیا اور بتایا کہ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کیلئے جب وہ سڑکوں پر نکلے تب انہیں پتہ چلا کہ کون کون بڑا آدمی ہے اور عبدالعلیم خان بھی ان میں سے ایک تھے۔دراصل ایسے فلاحی منصوبے دوسروں کیلئے بھی مشعل راہ ہوتے ہیں۔ ایک شوکت خانم بننے کے بعد ملک میں کئی ایک فلاحی ہسپتال بنائے گئے۔ ایک ادارہ بنا تو دیگر کو اس سے مشعل راہ ملی۔ رائزنگ سن انسٹیٹیوٹ کا منصوبہ بھی مخیر حضرات کیلئے باعث تقلید ہو گا۔
مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا کہ میں اس نیکیوں بھری تقریب میں شریک نہیں ہو سکا مگر میںکوشش کرونگا کہ اپنے دوست افتخار سندھو کے لنگر کی افتتاحی تقریب میںنہ صرف خود جاﺅںبلکہ دیگر اہل قلم و کالم کو بھی لے جاﺅں اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ نیکی کسے کہتے ہیںاور ا سکا ذائقہ کتنا یاد گارہوتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024