اللہ تعالیٰ اور اس کے حبےب کرےم حضرت محمد مصطفی کی محبت انسان کو سخت سے سخت آزمائش مےں بھی ثابت قدم رکھتی ہے۔ حضرت سےدنا بلال حبشیؓ کو دہکتے انگاروں پر لٹائے جانے کے باوجود ان کے لبوں پر احد‘ احد کی صدا گونجتی رہی۔ امرےکہ کی طرف سے گوانتاناموبے کے بدنام زمانہ قےد خانے مےں مسلمانوں کو انتہائی تنگ پنجروں مےں جانوروں سے بھی بدتر حالات مےں قےد رکھا گےا اور انہےں دےنِ اسلام کو خےرباد کہہ دےنے کی ترغےب دی گئی مگر اُنہوں نے بھی معذور و مفلوج ہوجانا گوارا کرلےا مگر اسلام سے منہ نہ پھےرا۔ دراصل خدا تعالیٰ اور محبوب خدا کی محبت سے لبرےز دل ودماغ کے حامل مسلمان سرکٹا لےتے ہےں مگر کفر و شرک کے آگے سر کبھی نہےں جھکاتے۔ ظلم و ستم حد سے بڑھ جائے تو گھر بار چھوڑ کر ہجرت اختےار کر لےتے ہےں تاہم کبھی اپنے اےمان کا سودا نہےں کرتے۔ مےانمار کے روہنگےا مسلمان اِن دنوں اےسی ہی آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ انہےں وہاں کی حکومت‘ فوج اور بدھ دہشت گردوں کے ہاتھوں جس انسانےت سوز سلوک کا سامنا ہے‘ اسے دےکھ کر دنےا کا ہر حساس مسلمان خون کے آنسو رو رہا ہے۔
مےانمار کی دنےا مےں حےثےت ”کےا پدی‘ کےا پدی کا شوربہ“ کے مترداف ہے لےکن اس کے حکمرانوں کو بھی پتہ ہے کہ 50سے زائد اسلامی ممالک کے چند اےک حکمرانوں کے سوا باقی سب کی دےنی حمےت اور غےرتِ اےمانی کہیں کھوچکی ہے۔ چنانچہ وہ بڑی دےدہ دلےری سے مسلم مٹاﺅ پالےسی پر گامزن ہےں۔ ان کے بہےمانہ مظالم سے تنگ آئے مسلمان جب پناہ کی غرض سے بنگلہ دےش کی سرحد پر پہنچتے ہےں تو وہاں بھی انہےں خوش آمدےد نہےں کہا جاتا کےونکہ بنگلہ دےش مےں برسراقتدار دُرگادےوی اسے مےانمار کا اندرونی معاملہ قرار دےنے پر مصر ہے۔ آج جب دنےا بھر مےں مےانمار حکومت کے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج ہورہا ہے اور انسانی حقوق کی تنظےمےں وہاں کی حکمران آنگ سان سوچی سے امن کا نوبےل انعام واپس لےنے کا مطالبہ کررہی ہےں تو ہمارے ازلی دشمن بھارت کے پردھان منتری نرےندرا مودی نے مےانمار کے اپنے حالیہ سرکاری دورے میں مسلمانوں کے خون کے پےاسے لےڈروں کو اپنی بھرپور حماےت کا ےقےن دلاےا۔
بے شک! قربِ قےامت کے اس زمانے مےں خونِ مسلم ارزاں تر ہوچکا‘ امتِ مسلمہ سمندر کی جھاگ کی مانند بے وقعت ہوچکی۔ اس لیے اغےار اسے پاﺅں تلے روند رہے ہےں۔ اس سنگےن صورتحال کی زےادہ تر ذمہ داری اسلامی ممالک کے حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے جن کے مفادات اسلام دشمن عالمی طاقتوں کی خوشنودی سے بندھے ہوئے ہےں‘ لہٰذا وہ صرف قراردادےں منظور کرکے بری الذمہ ہوجاتے ہےں۔ ان ممالک کے باسی جب ذرائع ابلاغ پر مسلمان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی کٹی پھٹی اور جلی ہوئی لاشےں‘ عزت و عصمت سے محروم کردہ مظلوم خواتےن کی فرےاد کناں آنکھےں دےکھتے ہےں تو ان کی اور اپنی بے بسی پر کڑھتے ہےں‘ ان کا کلےجہ پھٹنے لگتا ہے‘ دےنی حمےت جوش مارتی ہے اور وہ اپنے گھروں سے باہر نکل کر سڑکوں پر احتجاج کرتے ہےں۔ ان کا اےسا کرنا فطری ہے کےونکہ حضور اکرم کا فرمان ہے کہ مےری امت جسد واحد کی مانند ہے‘ اگر اس کے کسی اےک عضو کو تکلےف پہنچے تو پورا وجود درد محسوس کرتا ہے۔ مےانمار مےں ظلم و ستم کے شکار اپنے مسلمان بہن بھائےوں کی حالت زار پر ان کا تڑپنا درحقےقت اسی حدےث پاک کی عملی تشرےح ہے لےکن اسلامی ممالک کی حکمران اشرافےہ اس کے فہم و ادراک سے قاصر دکھائی دےتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاج عوام کا نہیں‘ صرف رےاست کا حق ہے۔ عوام الناس اس مو¿قف سے اتفاق نہےں کرتے کےونکہ حکومتی احتجاج سفارتی مصلحتوں مےں ملفوف ہوتا ہے‘ عوامی امنگوں کا ترجمان ہرگز نہےں ہوتا۔ ان حالات مےں جب بے بسی اور بے چےنی کے عالم مےں مسلمان عوام کے اندر اپنے مظلوم بہن بھائےوں کی حماےت مےں ظالموں سے خود انتقام لےنے کے جذبات پنپتے ہےں تو اغےار بلکہ خود ان کے اپنے حکمران بھی ان پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لےبل چسپاں کردےتے ہےں۔
مےانمار مےں نہتے مسلمانوں پر سب وشتم کی اس تارےک رات کے طول پکڑنے کا بنےادی سبب یہ ہے کہ سلطنت عثمانےہ کے زوال کے بعد سے ابتک امت مسلمہ جس قدر باہم منقسم ہے‘ اسلام دشمن طاقتےں اتنی ہی متحد ہےں اور اےک باقاعدہ منصوبے کے تحت اس کے مذہبی جذبات اور ملی غیرت کو کچوکے لگاتی ہےں‘ کبھی حضور اکرم کے توہےن آمےز خاکے شائع کرکے تو کبھی مےانمار کے مسلمانوں کی منظم نسل کشی کرکے۔ آنگ سان سوچی نے پہلے تو ان مظالم پر چپ سادھے رکھی اور جب منہ کھولا تو کمال ڈھٹائی سے انہےں جھوٹی خبرےں قرار دے ڈالا۔ انسانی آزادےوں کی اس نام نہاد علمبردار کو دکھائی نہےں دے رہا کہ اس کی فوج اور بدھ دہشت گرد بے گناہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہےں۔ عورت ہونے کے باوجود اسے وہ مظلوم مسلمان عورتےں دکھائی نہےں دے رہےں جن کی آبرورےزی کے بعد ان کی لاشےں درختوں سے لٹکائی جارہی ہےں۔ اسے وہ خندقےں بھی نظر نہےں آرہےں جن مےں مسلمان مردوں‘ عورتوں اور معصوم بچوں کو جمع کرکے ان پر بلڈوزر چلا کر زندہ درگور کےا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی اس بربادی پر خود کو انسانی حقوق کے چےمپیئن گرداننے والے ممالک بھی مہر بلب ہےں کےونکہ تباہی کا شکار ہونے والے ےہود و نصاریٰ ےا ہندو نہےں بلکہ حضرت محمد مصطفی کے امتی ہےں۔ یوں تو مہاتما بدھ کے پےروکار اپنے پاﺅں تلے حشرات الارض کے کچلے جانے سے بھی پناہ مانگتے ہےں مگر 1942ءسے اب تک وہ لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تےغ کرچکے ہےں۔ بدھ بھکشوﺅں کا ےہ انسانےت دشمن چہرہ حالےہ دنوں مےں زےادہ بے نقاب ہوا ہے کےونکہ اب کوئی امر ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل مےڈےا سے پوشےدہ نہےں رکھا جاسکتا۔
مسلمانوں کے خلاف جبرو تشدد کی موجودہ لہر کا آغاز جون 2017ءکے اوائل مےں ہوا جب دس مسلمان مبلغےن کی جماعت مسلمانوں کی اےک بستی مےں دعوتِ دےن کا مقدس فرےضہ سرانجام دے رہی تھی۔ بدھ دہشت گردوں کے اےک گروہ نے ان پر حملہ کر دےا‘ چھرےوں کے وار سے انہیں شدید زخمی کر دیا‘ ان کی زبانےں رسےوں سے باندھ کر منہ سے باہر کھےنچ لےں۔ اس بدترےن تشدد کے باعث دس کے دس مسلمان تڑپ تڑپ کر شہےد ہوگئے۔ بستی کے مسلمانوں نے اس درندگی پر احتجاج کےا تو بدھ دہشت گردوں نے800گھروں پر مشتمل ان کی بستی کو جلا کر راکھ کردےا۔ اسی پر بس نہےں‘ بعدازاں 700گھروں پر مشتمل دوسری اور پھر تےسری بستی بھی نذر آتش کردی جو 1600گھروں پر مشتمل تھی۔ اس روح فرسا واقعہ کے بعد سے اب تک مےانمار کی فوج اور بدھ دہشت گرد مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں اور کوئی ان کا ہاتھ روکنے والا نہیں۔ اقوام متحدہ ایک قرارداد میں روہنگیا مسلمانوں کو روئے زمین کی سب سے مظلوم اقلیت قرار دے چکی ہے اور بس۔ اس کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس خبردار کر چکے ہیں کہ یہ مسئلہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اس مسئلے پر جرا¿ت ایمانی سے کام لیا ہے جس سے اہل اسلام کو حوصلہ ملا ہے۔ عوامی دباﺅ کے باعث اب کئی دیگر اسلامی ممالک بھی روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہو رہے ہیں۔ قازقستان کے دارلحکومت آستانہ میں اسلامی تعاون تنظیم (OIC)کے سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق منعقدہ پہلے سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر میانمار حکومت پر شدید تنقید کی گئی اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو وہاں جاکر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے کی اجازت دے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے والے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائے۔
نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سوچ کا امین ادارہ ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے 23 مارچ 1940ءکے تاریخ ساز اجلاس میں فلسطینی عوام کے حقوق کے حوالے سے قرارداد کی منظوری ان کی عالم اسلام سے قلبی وابستگی کا بین ثبوت ہے۔ اس تناظر میں یہ قومی نظریاتی ادارہ دنیائے اسلام کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ چنانچہ روہنگیا مسلمانوں کو درپیش مصائب و آلام پر پاکستانی قوم کے دلی جذبات کی ترجمانی کے لیے اس نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور کے باہر ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا جس میں دینی‘ سیاسی و سماجی شخصیات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مظاہرے کی قیادت تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ نے کی۔ اس موقع پر ٹرسٹ کے سیکرٹری جناب شاہد رشید‘ سجادہ نشین آستانہ¿ عالیہ علی پور سیداں پیر سید منور حسین شاہ جماعتی اور معروف کالم نگار محمد اکرم چوہدری بھی موجود تھے۔ شرکاءنے مختلف نعروں کے حامل پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور اپنے مظلوم مسلمان بہن بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ایک پلے کارڈ پر درج تھا: ”کہاں گئی غیرتِ مسلم؟ کہاں ہے اتحادِ امت؟“ جبکہ دوسرے پر لکھا تھا:
Aung San Suu Ki is a Nobel Peace Prize Vampire
یہ دونوں نعرے معنوی اعتبار سے صد فیصد درست ہیں۔ کاش! امت مسلمہ میں پھر سے نور الدین زنگیؒ، صلاح الدین ایوبیؒ اور محمد بن قاسمؒ جیسے بہادر رہنما پیدا ہو جائیں جن کی جرا¿ت و حمیت کے طفیل کوئی کافر کسی مسلمان کو ہاتھ بھی نہ لگا سکے۔ یااﷲ! تیرے محبوب کی امت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ تیرے حبیب سے وفا میں اپنی بقاءسمجھتی ہے جس کی پاداش میں اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اغیار نے اس کی بے حرمتی پر کمر کس لی ہے مگر یہ پھر بھی ثابت قدم ہے۔ یاالٰہی! تجھے واسطہ ہے اس محبت کا جو تو اپنے حبیب کریم سے کرتا ہے‘ اس امتِ مظلوم کے حال پر رحم فرما‘ میرے مولا! اس کے آنسوﺅں اور آہوں کی روداد سن لے‘ اس کی دادرسی فرما دے کہ تیرے سوا کوئی اور اسے کفار کے مقابلے میں مدد نہیں دے سکتا۔