برادرم پرویز رشید کی یہ بات تو سچ نکلی کہ میں نے غلیل والے پاک فوج کو نہیں کہا تھا۔ انہوں نے صحافی کے کراچی میں زخمی ہونے پر مخصوص میڈیا کے لئے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ میڈیا سے ہمدردی ٹھیک ہے مگر مخصوص میڈیا کا معاملہ کچھ اور ہے۔ اب اس کا اندازہ بھی پرویز رشید کو ہو رہا ہے کہ وہ دلیل والے نہیں ہیں۔ ان کا ساتھ دینے کی بات کی گئی تھی۔ دلیل کا تعلق دل سے نہ ہو تو وہ فطری نہیں رہتی۔ اب بھی ”وہ میڈیا“ وہی کر رہا ہے جو زخمی صحافی کی آڑ میں کیا تھا جس کے لئے بھارتی میڈیا نے بھی وہی کیا جو پاکستان میں مخصوص میڈیا کر رہا ہے۔
پرویز رشید چونکہ اندر سے سادہ آدمی ہیں سادہ لگتے زیادہ ہیں مگر وہ چالاک بھی ہیں اور چالاک لگتے نہیں ہیں۔ پرویز رشید نے ایک بات تو کر دی مگر کوئی بات تو تھی کہ لوگوں نے سمجھا کہ اس سے ان کی مراد پاک فوج اور آئی ایس آئی ہے۔ کچھ باتیں بھی ہونے لگیں تو پرویز رشید نے اپنی تشریح کی کہ میری مراد غلیل والوں سے پاک فوج نہیں تھی۔ وہ تو بندوق والے ہیں۔ ایک زمانے میں غلیل سے بھی بندوق کا کام لیا جاتا تھا۔ میں یہ باتیں اندازے سے کر رہا ہوں۔ نہ میں شکاری ہوں نہ میں شکار ہوں۔
جب دھرنے والے وزیراعظم ہاﺅس پر چڑھائی کر رہے تھے تو حکومت والوں کے بقول وہ ”مسلح“ تھے۔ ان کے پاس کلہاڑے تھے۔ جبکہ کلہاڑے آج کل صرف اپنے پاﺅں پر مارنے کے کام آتے ہیں۔ یا یہ اپنی بیوی کو سزا دینے کے لئے بہت اچھا ہتھیار ہے۔ دھرنے والوں کے پاس کیل کانٹے سے لیس ڈنڈے تھے اور جھنڈے بھی تھے جو آج کل لہرانے کے علاوہ لڑنے بھڑنے کے لئے بھی خاصی جائز چیز ہے۔ ان کے پاس غلیلیں بھی تھیں جن کے ربڑ بہت لمبے تھے۔ اس سے دور کے نشانے کو بھی زد میں لیا جا سکتا ہے۔ آج کل زد اور ضد میں کوئی فرق نہیں رہا۔
پرویز رشید نے کہا کہ یہ ہیں غلیلوں والے جو اصل میں دہشت گرد ہیں۔ ان کو میں نے کہا تھا کہ میں ان کے ساتھ نہیں ہوں۔ اصلی دہشت گردوں کے لئے بھی انہوں نے کہا کہ وہ غلیلوں والے ہیں۔ شمالی وزیرستان والے بندوق اور غلیل میں فرق نہیں سمجھتے۔ جیسے ہمارے دیہاتی گھروں میں غلیلیں ہوتی تھیں۔ ویسے ہی قبائلی پٹھانوں کے گھروں میں بندوقیں ہوتی ہیں۔ ان کے لئے بندوق چلانا (ڈز کرنا) ایسے ہی ہے جیسے غلیل چلائی جاتی ہے۔ غلیل میں وٹہ (چھوٹا پتھر) گولی کی طرح لگتا ہے۔
پرویز رشید کی بات کافی حد تک ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم مان جاتے ہیں کہ انہوں نے یہ لفظ پاک فوج اور آئی ایس آئی کے لئے استعمال نہیں کیا تھا تو وہ یہ بھی بتا دیں کہ دلیل والے کون ہیں۔ ہماری تاریخ میں میر صاحبان بہت ”مشہور“ ہیں۔ میر اور امیر بھی۔ تقریباً ایک ہیں۔ میں نے زندگی میں کم کم کسی میر کو غریب دیکھا ہو گا۔
عمران خان کی اس بات کے جواب میں پرویز رشید نے کہا کہ سب لوگ بھی ہوں گے مگر عمران بھی فوج کی نرسری میں چلے ہیں۔ عمران جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے انچارج تھے۔ مشرف جیت گئے تھے۔ پاکستان میں ہر ریفرنڈم کے دوران جو دھاندلی ہوئی اس کی مثال بھی نہیں ملتی۔ اس الیکشن کو عمران نے مبارکبادوں کے شور میں قبول کیا تھا۔ اب بھی دھاندلی ہوئی ہے اور عمران کو تجربہ ہے کہ دھاندلی کس طرح کرائی جاتی ہے۔ ریفرنڈم میں نہ کوئی ووٹر نہ الیکشن ایجنٹ۔ بس عملہ ہی عملہ۔ اس عمل کے نتیجے میں جنرل ضیا جیتا اور مشرف بھی جیتا۔ جنرل مشرف اگر وعدے کے مطابق عمران کو وزیراعظم بنا دیتے تو یہ دھرنا ہوتا نہ ڈرنا اور ”مرنا“ ہوتا۔ اب بھی عمران بات وزیراعظم کی طرح کرتا ہے۔
جنرل پاشا کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا نام عمران خان کے سرپرستوں میں لیا جاتا ہے۔ یہ کیوں ہے کہ سیاستدانوں کے حوالے سے جرنیلوں کی امداد کی بات ضرور کی جاتی ہے۔ عمران نرسری میں نہ پلے ہوں گے تو باغ میں پلے ہوں گے۔
چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم باد و باراں ہے
پرویز رشید نے یہ بھی کہا ہے کہ عمران دھرنے میں لوگوں کے کم ہونے کا غم و غصہ پولیس پر نہ نکالیں۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ جس زبان اور لہجے میں عمران خان آئی جی اسلام آباد اور پنجاب کا نام لے کے کہتے ہیں کہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا ابھی تک عمران نے انہیں پکڑا بھی نہیں ہے؟ عمران کس حیثیت سے کس اتھارٹی سے یہ بات کرتا ہے۔ اور اس انداز میں کرتا ہے۔ یہ باتیں اس سے کم رعونت اور تکبر سے دوسرے سیاستدانوں نے بھی کی ہیں مگر اقتدار میں آ کے یہی پولیس افسران اور سول افسران ان کے دل کے قریب بلکہ ”عنقریب“ ہو گئے۔ انہیں پچھلے حکمرانوں جیسے احکامات دیے گئے اور پولیس والوں نے ایسے ہی اقدامات کئے۔
آج تک پولیس اور پولیس افسران ہر حکمران کا حکم مانتے چلے آئے ہیں۔ محکوموں کو مظلوموں میں تبدیل کرنا ان کا فرض منصبی ہے۔ یہی پولیس ہے جس نے بے چارے وزیر شذیر رانا مشہود کو تھپڑ مارے، گالیاں نکالیں۔ دھکے دیے۔ یہی پولیس ہے جو آج کل رانا صاحب کے اشارے کی منتظر رہتی ہے۔ حکمران سیاستدان ٹھیک ہوں گے تو پولیس بھی ٹھیک ہو گی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ حکمران فوج کو بھی پولیس بنانا چاہتے ہیں۔ آج بھی دھرنے کے آس پاس اہم سرکاری عمارتیں فوج کی تحویل اور حفاظت میں ہیں۔ سیلاب زدگان کے لئے بھی فوجی جوانوں کی سرگرمیاں قابل ذکر ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024