کئی دوستوں نے آج ملک میں معاشی ایمرجنسی لگانے کی آصف زرداری کی تجویز کے ذکر پر ردعمل دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کے لئے ردی عمل کی اصطلاح کو بھی پسند کیا۔ آرمی چیف جنرل باجوہ کا ایک جملہ بھی وزیروں اور حکومتی سیاستدانوں کو چبھ گیا ہے۔
’’صدر‘‘ زرداری آج کل مسلسل باتیں کر رہے ہیں۔ کئی باتیں بہت دلچسپ اور گہری ہوتی ہیں۔ ہماری پرانی خواہش ہے کہ سیاستدانوں میں کوئی تو ہے جس کی باتیں معنی خیز ہیں۔ مگر اکثر رہنماؤں کی باتیں مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔
ملک میں معاشی صورتحال کے زوال کا جو منظرنامہ ہے۔ وہ ڈراؤنے خواب کی طرح ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کو اس حوالے سے امید کا پیغام قوم کو دینا چاہئے تھا اور معاشی پریشانیوں کے حوالے سے اعتراف بھی کرنا چاہئے۔ سیاستدان ہمیشہ اختلاف کی بات کرتے ہیں مگر اعتراف کرنے کا حق اس کو ہے جو اعتراف کرنا جانتے ہیں۔
’’صدر‘‘ زرداری نے نوازشریف کے تنقیدی بات کی ہے۔ وہ ایک کامیاب سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ایوان صدر میں اپنے پانچ سال جس طرح پورے کئے‘ وہ ایک مثال ہیں۔ اس موقعے پر صدر زرداری رسمی طور پر صدر نہ تھے۔ وہ صدر تھے تو اس منصب کی اہمیت اور شان کا تحفظ کیا ہے۔
انہوں نے بھی دو وزیراعظم بنوائے۔ نہایت بردباری سے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ایوان صدر بلایا اور پھر نہایت اطمینان اور وقار کے ساتھ گھر بھجوایا اور راجہ پرویز اشرف کو وزارت عظمیٰ کا چارج دے دیا گیا۔
سب کچھ بڑے آرام سے ہو گیا۔ جمہوری عمل کو کسی طرح کا خطرہ محسوس نہ ہوا۔ اقتدار کی منتقلی کا معاملہ بھی بڑے سلیقے سے طے ہو گیا۔ اب تو وزیر داخلہ احسن اقبال اور ڈی جی آئی ایس پی آر آمنے سامنے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
آرمی چیف نے ملک کی معاشی صورتحال کی طرف کوئی اشارہ کر دیا ہے تو اس سے کوئی قیامت تو نہیں آ گئی۔ اس پر وزیر داخلہ کی خفگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے بہرحال اچھے ریمارکس نہیں دیئے۔ اس کی وضاحت جنرل آصف غفور نے کر دی ہے۔
ہمارے ہاں سیاستدان جرنیلوں سے ہمیشہ ڈرتے رہے ہیں۔ نوازشریف سمجھتے ہیں کہ مجھے صرف جرنیل نکال سکتے ہیں مگر اس بار عدلیہ نے یہ فرض ادا کیا ہے۔ اس طرح اہم اداروں کے لئے بحث چھڑ گئی ہے۔ نوازشریف کو کسی نہ کسی طرح اپنی مدت پوری کرنا چاہئے تھی مگر ان کا ریکارڈ ہے کہ وہ کبھی سیاسی طریقے سے رخصت نہیں ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ نوازشریف کی طرف سے مولانا فضل الرحمن میرے پاس آئے تھے۔ میں نے ہمیشہ نواز شریف سے وفا کی ہے مگر اس کا مناسب جواب نہیں ملا۔ انہوں نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
صدر زرداری ایک دفعہ کھانا کھانے کے لئے کراچی سے رائے ونڈ آئے تھے۔ رائے ونڈ میں تقریباً اسی انداز میں بھارتی وزیراعظم مودی کو نوازشریف نے خوش آمدید کہا تھا اور اپنے گھر والوں سے ملوایا تھا۔ شہباز شریف مودی کو نہیں ملے تھے۔ جسے لوگوں نے پسند کیا تھا۔
اب نوازشریف ہر ایک سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔ زرداری صاحب نے یہ سوال کر دیا کہ آپ نکلے ہی کیوں؟ اس جملے پر بھی غور کریں۔ نوازشریف نکالنے والوں کے خوف سے نکلے۔
ریاست کے اندر ریاست کی بات کرتے احسن اقبال سے کوئی پوچھے کہ یہاں تو حکومت کے اندر حکومت ہے۔ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ میں وزیراعظم نہیں ہوں وزیراعظم نوازشریف ہیں؟
ایک زمانے میں نہال ہاشمی نونہال ہاشمی بن گئے تھے۔ پھر آصف کرمانی اور اب احسن اقبال…؟ اس کے بعد کون ہو گا۔ احسن اقبال کابینہ میں نسبتاً بہتر آدمی ہیں مگر؟ ایک زبردست وکیل عارف چودھری نے کسی ٹی وی پروگرام میں کہا عدالتی معاملات کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کیا کر رہی ہے۔ حکومت کے اندر حکومت؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024