لاہور میں دہشت گردی کے حالیہ روح فرسا سانحہ کے باوجود نظریۂ پاکستان کانفرنس کا انعقاد پاکستانی قوم کے عزم و استقلال کا مظہر ہے۔ یہ وطن دشمنوں کو دوٹوک پیغام ہے کہ ان کے بزدلانہ ہتھکنڈے ہمیں خوفزدہ نہیں کرسکتے‘ بے ہمت نہیں بنا سکتے۔ اس قوم نے پہلے بھی بارہا ایسی آزمائشوں کا پامردی سے سامنا کیا ہے۔ اس نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ترقی کا سفر جاری رکھا ہے۔ اس کی معیشت اور دفاع روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہورہے ہیں اور یہ دہشت گردی‘ غربت‘ جہالت‘ پسماندگی اور بیروزگاری جیسے مہیب مسائل پر بتدریج قابو پارہی ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام اس نوویں سالانہ سہ روزہ کانفرنس کا آغاز روایتی آن بان سے آج ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ہورہا ہے۔ سرسبز اور گھنے اشجار سے گھری پرشکوہ عمارت میں منعقدہ اس قومی نظریاتی اجتماع میں معاشرے کے تمام طبقات کے نمائندہ ہزاروں مندوبین شرکت کریں گے تاہم ان میں معمارانِ قوم یعنی اساتذۂ کرام کی تعداد غالب ہوگی۔ ان کانفرنسوں کی داغ بیل بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ایک شیر دل سپاہی‘ امام صحافت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم مجید نظامی نے ڈالی تھی۔ ان کا لگایا یہ پودا اب ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ان میں پاک سرزمین کے عشاق‘ قائداعظم کو اپنا نجات دھندہ سمجھنے والے‘ علامہ محمد اقبال سے محبت کرنے والوں کے قافلے دُور و نزدیک سے کشاں کشاں چلے آتے ہیں اور اس مملکت خداداد کے اسلامی نظریاتی تشخص کے تحفظ کا عہد کرتے ہیں بابائے قوم کی منشاء کے مطابق اسے دین اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔ محترم مجید نظامی کے وصال کے بعد اب تحریک پاکستان ہی کے ایک اور مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ کی زیر قیادت کانفرنسوں کا یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ ٹرسٹ کے وائس چیئرمین محترم پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کی فکری رہنمائی اور سیکرٹری محترم شاہد رشید کی عملی پیش قدمی نے ان اجتماعات میں نئی روح پھونک دی ہے۔
نظریۂ پاکستان کانفرنسوں کے انعقاد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دراصل تقریباً ایک دہائی قبل ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کی نسل نو کو نظریۂ پاکستان یا دو قومی نظریے کے متعلق ابہام کا شکار بنانے کے لئے ایک انتہائی مکروہ منصوبے پر پوری شد و مد سے عمل درآمد شروع کردیا تھا اور ہمارے ملک کے اندر موجود کچھ بھارتی شردھالو اسے معاونت فراہم کررہے تھے۔ مشترکہ تہذیب و ثقافت اور دیوارِ برلن کے انہدام کی مثال دے کر پاک بھارت سرحد کو غیر ضروری قرار دینے کا پرچار زور و شور سے کیا جانے لگا تھا۔ ان سب پر مستزاد ہماری نوجوان نسل کو ذہنی پراگندگی کا شکار بنانے کے لئے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مادر پدر آزاد ہندووانہ ثقافت کی یلغار تھی۔ زیادہ تشویشناک امر یہ تھا کہ ہماری اُس وقت کی حکومت دشمن کے ان مذموم حربوں سے لاعلم سی دکھائی دے رہی تھی بلکہ قبل ازیں ایک فوجی آمر کی اختراع ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ کی ڈگڈگی کی بازگشت ابھی تک فضا میں موجود تھی۔ ان حالات میں 2008ء میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے اکابرین نے فرضِ کفایہ ادا کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ دشمن کو پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس کو پامال کرنے اور مادرِ وطن کی عزت و ناموس سے کھیلنے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے گی۔ چنانچہ دُوررس اور نتیجہ خیز اقدامات بروئے کار لائے گئے جن میں سالانہ بنیادو ںپر نظریۂ پاکستان کانفرنسوں کا انعقاد اور ان میں معمارانِ قوم کی بھرپور شرکت کو یقینی بنانا بھی شامل تھا۔ لازماً ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ آخر اساتذۂ کرام کو سول سوسائٹی کے دیگر طبقات پر فوقیت کیوں دی گئی؟ درحقیقت یہ طبقہ نسل نو کی تعلیم و تربیت کا مقدس فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ کسی بھی قوم کے تابناک یا المناک مستقبل کا دارومدار اس پر ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو قوم کو اوج ثریا پر پہنچا دے‘ چاہے تو تحت الثریٰ میں دھکیل دے۔ ایک استاد کو اپنا ہم خیال بنانے کا مطلب ہے کہ آپ نے اس کے لاکھوں شاگردوں تک بھی اپنا پیغام مؤثر انداز میں پہنچا دیا۔ بحیثیت مجموعی نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے اپنی توجہ کا محور و مرکز نسل نو کو بنایا ہوا ہے‘ لہٰذا یہ اساتذۂ کرام پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے وژن اور تحریک آزادی کے کارکنوں کی دلی امنگوں کے مطابق ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کی نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی جدوجہد میں ہراول دستے کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ ان اساتذۂ کرام کو متحرک کرنے کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی ہدایت پر صوبائی محکمۂ تعلیم کا بھرپور تعاون شامل حال رہتا ہے۔
آج شروع ہونے والی کانفرنس 18 فروری تک جاری رہے گی۔ اس کا کلیدی موضوع ’’طلوعِ پاکستان کے 70سال…کامیابیاں اور مسائل‘‘ ہے۔ اس میں کل 9 نشستیں منعقد ہوں گی۔ ان کانفرنسوں کی غرض و غایت اور روداد کی ترویج و اشاعت کے ضمن میں نوائے وقت گروپ نے پہلے محترم مجید نظامی اور اب ان کی صاحبزادی محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی زیرادارت نقیبِ اعظم کا کردار ادا کیا ہے۔ ان قومی نظریاتی اجتماعات کے مندوبین کو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نامور ماہرین اور اہل علم و دانش کے خیالات سے استفادے اور گروہی مباحثوں میں اہم قومی معاملات پر کھل کر اظہارِ خیال کا موقع میسر آتا ہے۔ انہیں وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی پاسبانی کے فریضے کی یاددہانی کرائی جاتی ہے۔ انہیں پاکستان کی اہمیت اور عظمت باور کرا کے خاکِ وطن کو سرمہ بنانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ غرضیکہ یہ کانفرنسیں اہل وطن کو ان جذبوں اور ولولوں سے سرشار کردیتی ہیں جو تحریک قیامِ پاکستان کے دنوں کا طرۂ امتیاز تھے۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ وہ گزشتہ سالوں کی طرح موجودہ کانفرنس کو بھی اپنے اغراض و مقاصد میں بے مثال کامیابی عطا فرمائے۔(آمین)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38