سری لنکن کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کی امید پیدا ہوئی ہے۔ انتیس جون کو نوائے وقت نے یہ خبر اپنے قارئین تک پہنچائی اس کے بعد سری لنکن ٹیم کے ممکنہ دورے کے شیڈول اور زیر غور مختلف آپشنز کے حوالے بھی اپنے قارئین کا باخبر رکھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ باضابطہ طور ممکنہ دورے پر پیشرفت ہوئی ہے۔ حال ہی میں نجم سیٹھی نے ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس کی صدارت کی اس دوران سری لنکن کرکٹ بورڈ حکام سے بات چیت میں برف پگھلتی نظر آ رہی ہے آنے والے دنوں میں ایک ٹونٹی ٹونٹی میچ کھیلنے کے لیے سری لنکن ٹیم کا دورہ پاکستان ممکن ہے۔ 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کی وجہ سے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ معطل ہو کر رہ گئی تھی دو ہزار پندرہ میں مختصر سیریز کھیلنے کے لیے زمبابوے نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اس کے بعد لاہور نے پاکستان سپر لیگ فائنل کی میزبانی بھی اب ایک مرتبہ پھر سری لنکن ٹیم کے دورہ پاکستان پر مثبت پیشرفت ہو رہی ہے۔ رواں سال ورلڈ الیون کے پاکستان آ کر کھیلنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ یہ کہنا خاصا مشکل اور قبل از وقت ہے کہ اس مشق سے پاکستان میں مکمل طور پر بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو جائیگی لیکن کرکٹ کی اپنے میدانوں پر واپسی کا عمل ضرور تیز ہو سکتا ہے۔ ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے کہا کہ سری لنکن حکام کے پاکستان آ کر کھیلنے کے حوالے سے مثبت بیان اور پیشرفت پر ان کے شکر گزار ہیں۔ یہ پاکستان کرکٹ کے لیے خوشخبری ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو۔ غیر ملکی ٹیمیں یہاں آ کر کھیلیں۔ ہمارے ویران میدان آباد ہوں، ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کے حوالے سے بھی پرامید ہوں۔ اس دورے کے لیے بھی معاملات بہتر انداز میں آگے بڑھے ہیں۔ قذافی سٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ فائنل کی میزبانی کے بعد ورلڈ الیون کے دورہ سے پاکستان میں آ کر کرکٹ کھیلنے کے حوالے سے دنیا کے رائے یقینا تبدیل ہو گی۔انہوں نے کہا کہ کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ بھارت سمیت سب کے ساتھ بات کرتے ہوئے قومی وقار کو مقدم رکھیں گے۔ اصولوں اور ملکی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ انڈر نائٹین ایونٹ کی بھارت سے منتقلی بھی ہمارے اصولی موقف کی فتح ہے۔بھارت سے ایونٹ کی میزبانی واپس لینے سے کسی سے ہمارے تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔ ہم آئندہ بھی اپنے تحفظات ہر سطح پر دلیری اور سمجھداری کے ساتھ پیش کرتے رہیں گے۔ کسی کے سامنے غیر ضروری لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے نہ ہی اپنے حق سے پیچھے ہٹیں گے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کے ساتھ باہمی سیریز حکومتی سطح پر اجازت سے مشروط ہے۔ انہیں اپنی حکومت سے اجازت ملتی ہے تو سیریز ممکن ہے۔ اگر سیریز نہیں بھی ہوتی تو ہم نے ہرجانے کا کیس کر رکھا ہے۔ ہمارا کیس مضبوط ہے۔ بورڈ آف گورنرز نے بھی ہمیں اس کیس کو آگے بڑھانے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ گورننگ بورڈ میں اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ملکی کرکٹ کی بہتری کے لیے سب سے بات چیت کریں گے۔ سری لنکن حکام کو رضامند کرنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑی خوش آئند بات یہ ہے کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ ہمارا کام رکن ممالک کو قائل کرنا ہے اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔ پاکستان میں کرکٹ کی واپسی اولین ترجیح ہے۔ کرکٹ اپنے میدانوں پر واپس لانے کے لیے سب کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ یہ مشکل مرحلہ ضرور ہے لیکن ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
نجم سیٹھی کی کاوشیں قابل قدر ہیں اس حوالے سے ہمیں شہریارخان کو بھی یاد رکھنا چاہیے انہوں نے بھی اس منصوبے پر اچھا کام کیا تھا لیکن سب سے اہم کردار قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان شہدا کا ہے جو اپنی جان پر کھیل کر ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ملک میں بحال ہوتا امن ان شہدا کے خون کی برکت ہے۔ ہم پر سکون فضا میں سانس لیں گے، خوشیاں منائیں گے تو یہ شہدا کی قربانیوں کے طفیل ہو گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نجم سیٹھی گفتگو کے ماہر ہیں یقینا ایسے معاملات میں وہ مستقبل میں بھی بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی سب سے اہم ہے۔ امن و امان کی بہتر صورتحال سے ہم اس مقصد میں جلد کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
نجم سیٹھی اب آئینی و قانونی پر پورے چیئرمین بن چکے ہیں۔ انہیں اپنے ماتحت اہم عملے کی کارکردگی کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ کئی اہم افسر دن ڈھلے دفتر تشریف لاتے ہیں حاضری لگانے کی کارروائی ڈالتے ہیں اور گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی خبر ہے کہ بعض کو اس معاملے میں بھی استثنی ہے۔ دوسری طرف انہیں اپنی مارکیٹنگ ٹیم کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے ورلڈ الیون اور سری لنکا کے ممکنہ دورہ پاکستان پر بھاری اخراجات آئیں گے۔ ان میچوں کے لیے اچھی سپانسر شپ بہت ضروری ہے ورنہ زمبابوے کے دورہ پاکستان کی طرح یہاں بھی مالی نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر سارا کام راو ہاشم کی کمپنی نے کرنا ہے تو پھر اپنے لوگوں کو ماہانہ لاکھوں اور سالانہ کروڑوں دینے کا کیا فائدہ ہے؟؟؟