میرا نام اقبال شاعر ہے، پولیس میرے پاس آئی تھی اور کہا کہ آپ کے کوئی تحفظات ہیں تو بتائیں؟ میں نے ان سے کہا کہ میں اس موقع پر تو موجود نہیں تھا، اس لئے کسی پر خواہ مخواہ کا الزام نہیں دھر سکتا، البتہ اس یونیورسٹی میں کیمرے موجود ہیں، اور میں تو اتنا کہتا ہوں کہ صرف میرا بیٹا ہی قتل نہیں ہوا، بلکہ اس حکومت کی رٹ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، تو اگر یہ اس کی کچھ خبر لیں گے تو میری بھی دادرسی ہوجائے گی۔
اور صاحب میں آپ کو بتادوں، یہ میرا بیٹا تھا، میں نے اسے پال پوس کے بڑا کیا تھا، خدا کو علم ہے، اور لوگوں کو پتا ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو بند دروازوں کے پیچھے بڑا کیا تھا، اگر میرے محلے میں کسی نے میرے بچوں پر انگلی اُٹھائی ہو تو بتا دیں میں ذمّہ دار ہوں گا۔ جہاں تک اس کے خیالات کا تعلق ہے توجب بھی دین کی بات آتی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتا، اور چوں کہ وہ صحافی تھا سو اس نظام پر تنقید بھی کرتا تھا، اور اس وقت بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا حوالہ دیتا تھا۔
میں یہی کہنا چاہوں گا سب سے جو میری طرح والدین ہیں، کہ ہم اپنی تنگدستی میں اپنے بچّوں کو پڑھاتے ہیں، انہیں کہاں کہاں ، یہاں تک کہ روس تک بھیجتے ہیں، اْن پر خرچ کرتے ہیں، یہ اس کا لاسٹ سمسٹر تھا، اور اْس نے فارغ ہونا تھا، کیوں کہ اس دن والدہ نے گھر آنے کا کہا تو اْس نے کہا کہ کل جمعہ ہے، پھر ہفتہ اتوار کی چْھٹی ہے، تو گھر آجاؤں گا، وہ آیا تو اس طرح سے۔
میں یہی کہوں گا کہ جو قیامت ہم پہ ٹوٹی ہے، ہم تو اسے سہ ہی جائیں گے، کیوں کہ ہم صبر کرنے والے لوگ ہیں۔ہم امن والے لوگ ہیں، ہم اس وطن میں محبت اورامن کا پیغام دیتے ہیں۔ جنگ اور فساد کیخلاف ہیں، اور صاحب ! میں نے حامد میر سے بھی اک بار کہا تھا سکردو میں ایک گفتگو میں کہ اگر لڑنے جھگڑنے میں عزّت ہوتی تو کْتّا بادشاہ ہوتا، کیوں کہ وہ سب جانوروں سے زیادہ جم کے لڑتا ہے۔ درد و کرب میں ڈوبے یہ الفاظ ولی خاں یونیورسٹی مردان کے قتل ہونے والے طالب علم مثال خاں کے مظلوم والد کے ہیں جو اس نے ایک ریڈیو چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ادا کئے۔ ہمارا معاشرہ تو الم کی ایسی داستانوں سے اٹا ہوا ہے۔
مسجد کے سپیکر پر مولوی صاحب نے اعلان فرمایا کہ ’’فلاں شخص نے توہین ِ رسالت کر دی ہے۔ اسے جہنم واصل کرنے کے لیے جلد پہنچو‘‘
یہ سنتے ہی دودھ میں پانی ملاتا ہوا بھولا گجر، مرچوں میں پسی ہوئی اینٹیں ملاتا ہوا علم دین پنساری، صاحب تک رشوت پہنچانے کے لیے رقم لیتا ہوا کسٹم کا بابو, ساری رات فحش فلمیں دیکھ کر ابھی ابھی سونے والا نوجوان، موٹر سائیکل سوار سے رشوت لیتا ہوا کانسٹیبل محمد نواز، ساری رات دھندہ کر کے ابھی ابھی سونے والا ہیرا منڈی کا دلال ساقا کنجر، بطور مٹن گدھے کا گوشت بیچتا ہوا ماجھا قصائی، میٹر میں کم بجلی کی کھپت دکھانے کے لیے نذرانے وصول کرتا ہوا میٹر ریڈر غلام رسول۔
سب فوراً اپنے کام چھوڑ چھاڑ کر اپنے ہاتھوں میں ڈنڈے ، پتھر ، اینٹیں اور منہ میں گالیاں لیے مولوی کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے دوڑے تاکہ گستاخ کو جہنم واصل کرکے اپنے لیے جنت کمائیں۔مشال خان ولی خان یونیورسٹی کا طالب علم جس کو ظالموں نے بے دردی سے قتل کر ڈالا، اس کی فیس بک ٹائم لائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ روسی تعلیمی اداروں میں پڑھا اور کمیونزم خیالات سے متاثر تھا مذہب کے خانے میں انسانیت لکھا ہے مشال خان کے علاوہ اس نے انسان پرست عرف بھی لکھا ہے۔
آدھی بات تو سمجھ آگئی مگر آدھی بات ابھی تشنہ ہے۔ میرے کچھ جاننے والے کیمونسٹ افراد اسلام پر ہرزہ سرائیاں کرتے ہیں مگر ان کو دلیل سے جواب دیا جاتا ہے سب جانتے ہیں کہ بائیں بازو کے حمایتی کس نظام کا پرچار کرتے ہیں حالانکہ وہ نظام روس اور دوسری دنیا میں پٹ چکا ہے۔ چین نے بھی اس میں اصلاحات کرکے قابل استعمال بنالیا تاکہ دنیا کے ساتھ چل سکے مگر ہمارے یہاں ابھی بھی کچھ لوگ اس پر مصر ہیں ہم مسلمانوں کو نہ دایاں اور نہ ہی بایاں بازو سوٹ کرتا ہے۔
شاید مشال خان نے اپنے خیالات کا استعمال غلط انداز سے کیا ہوگا اور غلط لوگوں کے سامنے۔ جب آپ ایسے لوگوں سے بحث کرتے ہیں جن کو اپنے عقیدوں کا تحفظ بات چیت کے ذریعے نہیں آتا تو نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے کیونکہ جب ایک فریق کے پاس کہنے کو کچھ نہ ہو تو وہ زور بازو کا استعمال کرتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔
حکومت نے مذہبی بحث و مباحثہ کو اتنی چھوٹ دی ہوئی ہے کہ عالم جاہل اور دیگر مذاہب اور نظاموں کے پیروکار آپس میں گتھم گتھا نظر آتے ہیں… مشال خان کے ایک دوست کی تحریر شئیر کرنا چاہوں گی۔۔۔۔ لکھتا ہے مشال خان ایک انتہائی خوبصورت نوجوان تھے۔ وہ ولی خان یونیورسٹی مردان میں جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن کے طالبعلم تھے۔ آج ان کو یونیورسٹی میں ایک ہجوم نے توہین رسالت کے الزام میں بے دردی سے قتل کیا اور ان کے لاش کی بھی بے حرمتی کی۔ میں نے مشال خان کا فیس بک پروفائل دیکھا اور ان کو سمجھنے کے لئے ان کے پوسٹس پڑھے۔ ان کے پروفائل کے مطابق وہ خود کو انسان دوست (humanist) کہتے تھے۔ وہ باچا خان کے پیروکار تھے۔ ان کے پوسٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک تنقیدی سوچ رکھنے والے انتہائی حساس انسان تھے۔ ان کے کئی پوسٹوں سے لگتا ہے کہ معاشرے اور وہ انسانی رویوں سے بہت مایوس تھے اور کئی دفعہ پر شکوہ باتیں بھی شئیر کی تھیں۔ وہ ریاستی پالیسی پر بھی تنقید کرتے تھے۔ ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہمیں تاریخ میں صرف جھوٹ اور نفرت سکھائی جاتی ہے۔ ان کی کئی پوسٹس سفر کرنے اور سیکھنے سے متعلق تھیں۔ ایک پوسٹ میں انہوں نے دعا مانگی تھی کہ "اے خدایا تو مجھے جہالت میں خوش رکھے یا علم برداشت کرنے کی استطاعت دے!"
اگر مسئلہ مدرسوں اور مسلکوں تک محدور ہوتا توآپریشن پر آپریشن کئے جاتے لیکن مردان میں یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں کیا پڑھایا جا رہا تھا۔ اگر ملک کا مسئلہ جہالت ہی ہے جیسا کہ سیانے ہمیں سالوں سے بتاتے آ رہے ہیں تو سلام ہے اْن کروڑوں بچوں پر جنہوں نے کبھی کِسی کلاس روم کے اندر قدم نہیں رکھا شاید وْہ جاہل بچے ہی اِس ملک کا مستقبل ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں بھی مدرسے بن چکی ہیں۔ اب یہاں سے بھی سائنٹسٹ اور اسکالر نہیں لوگ نام نہاد مسلمان بن کر نکل رہے ہیں۔ جنہوں نے توہین رسالت کو جواز بنا کر مشال کے ساتھ غیر انسانی غیر اسلامی غیر اخلاقی غیر قانونی سلوک کیا۔ وہ کسی مدرسے کے نہیں بلکہ ایک سیکولر یونیورسٹی کے طالبعلم تھے۔ اشتعال کا مظاہرہ ایک دو افراد نے نہیں کیا بلکہ طلباء کی کثیر تعداد اس میں شریک ہوئی۔ جس میں زیادہ تعداد ان کے ڈیپارٹمنٹ کی تھی۔
یہ دونوں باتیں اس حقیقت کو واضح کرنے کیلئے کافی ہیں کہ ریاست مردہ ہو چکی ہے۔ پاکستان میں کسی کی جان مال محفوظ نہیں تو پھر اس ملک کے سیاستدان حکمران ذمہ دار جائیں بھاڑ میں۔ عوام کسی کو ووٹ کیوں دیں۔ پختون خواہ کی حکومت بھی ماڈل ریاست کا نمونہ پیش کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024