الطاف حسین کی ایک بات مجھے اچھی لگی اور خواجہ آصف کی ساری باتیں اچھی نہیں لگیں۔ الطاف حسین جب منی لانڈرنگ کے حوالے سے تھانے پہنچے تو گاڑی سے نکلتے ہوئے انہوں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا جبکہ وہ برطانوی شہری بھی ہیں۔ انہوں نے پہلے ایک دفعہ برطانوی سامراج بھی کہہ دیا تھا۔ میں نے تو کئی بار کہا ہے کہ اب وہ واپس آ جائیں۔ برطانوی شہریت چھوڑ دیں اور صرف پکے پاکستانی بن جائیں۔ وہ تو آنا چاہتے ہیں یہ ایم کیو ایم کی پاکستانی قیادت ان کو آنے نہیں دیتی۔ وہ آ گئے تو یہاں کس کی دال گلے گی؟ دال میں کچھ کچھ کالا بھی نظر آنے لگ گیا ہے۔ کوئی یہ بتائے کہ بابر غوری پاکستان سے کیوں بھاگ گئے ہیں۔ کیا الطاف حسین کے بعد وہ ایم کیو پر قبضہ تو نہیں کرنا چاہتے۔ میرا خیال ہے اس کے لئے بہت بڑی گروپنگ اور جنگ ایم کیو ایم میں ہو گی مگر میرا خیال ہے کہ ایم کیو کو ختم کرنا مشکل ہو گا۔ مگر الطاف حسین نے کوئی حل بھی نہیں بتایا کہ ایم کیو ایم کی اصلاح کیسے کی جا سکتی ہے؟
الطاف حسین جاگیرداروں کے خلاف بات کرتے ہیں۔ اچھا لگتا ہے مگر اب وہ ایم کیو ایم میں بھی جاگیردارانہ سوچ کا خاتمہ کریں۔ وہ پانچ گھنٹے کی تفتیش کے بعد سیکرٹریٹ پہنچے تو جو نعرے لگے وہ بہت نامناسب تھے۔ ’’مہاجروں کے دل کا چین الطاف حسین، الطاف حسین۔ انہوں نے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ بنا کے قومی دھارے میں شامل کیا مگر غور کریں کہ دونوں طرح وہ ایم کیو ایم ہے۔ الطاف حسین کو ایک مشورہ سینئر کالم نگار اثر چوہان نے دیا ہے کہ ’’وہ بھٹو نہ بنیں‘‘ بھٹو نے اچھے بھلے قانونی مقدمے کو سیاسی بنا دیا اور یہ سازش اس کے خلاف اس کے خوشامدی دوست وکیلوں نے کی مگر عدالت میں اس کی جرات مندانہ اور تخلیقی گفتگو تاریخ میں یاد رہے گی۔ انہوں نے خواجہ فرید کا ایک شعر بھی پڑھا تھا اس کے بعد ان کو پھانسی کی سزا نہیں دینا چاہئے تھی۔
درداں دی ماری جندڑی علیل اے
کوئی نہ سندا ڈکھاں دی اپیل اے
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان کے جانشین اور وارث ’’صدر‘‘ زرداری ہیں۔ بھٹو زندہ ہوتے تو بے نظیر بھٹو کی شادی کبھی زرداری صاحب سے نہ کرتے اور وہ شہید بھی نہ ہوتی۔ اب دعا ہے کہ اللہ بلاول کی حفاظت کرے۔ اس کا نام بلاول بھٹو زرداری زرداری صاحب نے رکھا ہے اور اس میں کئی تلخ حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں۔ میری نصیحت بلاول سے ہے کہ وہ پاکستان کبھی واپس نہ آئے۔ بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی سب سے بڑی بدقسمتی کی بات بن گئی ہے۔ اس کے مقدمے کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا جبکہ پانچ سال ایوان صدر پر زرداری صاحب کا قبضہ رہا۔ اس بات کے پیچھے نجانے کیا کیا باتیں ہیں؟ ان میں سے کچھ باتیں ذوالفقار مرزا جانتا ہے۔ وہ رحمان ملک کا نام بڑی بری طرح لیتا ہے اور رحمان ملک ’’صدر‘‘ زرداری کے بہت قریب بلکہ عنقریب ہے۔ کیا ایم کیو ایم میں ایسا کوئی آدمی موجود ہے؟ الطاف حسین کو احتیاط کرنا چاہئے اور تفتیش کرنا چاہئے۔
خواجہ آصف ایک بہت مشکل کردار ہے۔ ان کو تحریک انصاف اور عمران خان کے قومی اسمبلی میں پہنچے پر خیرمقدم کرنا چاہئے تھا مگر انہوں نے جو زبان استعمال کی ہے ’’وہ جو ہے‘‘ وہ کسی ضابطے کے مطابق غیرمناسب ہے جبکہ غیرسیاسی ہے۔ ایسا آدمی سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عمران خان کو شرم آنا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ انہیں واقعی شرم آنا چاہئے۔ عمران کو ابھی قومی اسمبلی میں نہیں آنا چاہئے تھا بلکہ کبھی نہیں آنا چاہئے تھا۔ اب بھی میرے خیال میں انہیں قومی اسمبلی میں نہیں آنا چاہئے۔ تحریک انصاف کی طرف سے صرف شاہ محمود قریشی ہی کافی ہے۔ اس کے لئے سیاست میں شرم اور بے شرمی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ ’’صدر‘‘ زرداری کے دربان تھے۔ آپ زرداری سے سب سے قریبی سابق دوست ذوالفقار مرزا کی اس بات پر غور کریں کہ رحمان ملک کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے شامل تفتیش کریں اور پھر نجانے کون کون لوگ شامل تفتیش ہونگے۔
خواجہ آصف کے لئے ہماری کالم نگار طیبہ ضیاء کا یہ جملہ بہت معنی خیز ہے۔ اس پر نواز شریف کو غور کرنا چاہئے۔ ’’خواجہ آصف چودھری نثار بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ دیکھنا یہ ہے کہ انہیں کون چودھری نثار بنانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ خواجہ آصف نواز شریف کے کہنے پر کوئی بھی بیان دے سکتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے خلاف بھی بیان دے سکتا ہے۔ وہ دوبارہ پیدا ہوں تو بھی چودھری نثار بننے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ نواز شریف کا کابینہ میں چودھری نثار ایک ایسا وزیر ہے جو ایک نعمت ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو جس حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ صرف چودھری صاحب کے پاس ہے۔ ایک زمانے میں انہوں نے پاک فوج کے خلاف سخت نازیبا زبان استعمال کی تھی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ خواجہ آصف اپنے طور پر یہ جرات کر سکیں؟ وہ کوئی جرات والا کام خود بخود نہیں کر سکتا۔ پھر پسپائی اور رسوائی خواجہ صاحب کے حصے میں آئی۔ نواز شریف نے بھی بڑی مشکل سے جان بچائی۔ اب نواز شریف کو احتیاط اور اہتمام سے معاملات کو چلانا چاہئے۔ یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمیں جنرل راحیل شریف جیسا تاریخ ساز سپہ سالار ملا ہے۔ وہ سیاست کی کامیابی کے لئے ثابت قدم ہیں۔ وہ پاکستان اور پاکستانی سیاست کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کو مل کر کردار ادا کرنا چاہئے۔
ایک عجیب تصویر اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ خواجہ آصف امریکی سفیر رچرڈ اولسن سے بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کیا بات کی ہو گی؟ رچرڈ اولسن کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ کس کے ساتھ کیا بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے چودھری نثار سے بات کی ہے تو کیا یہ کافی نہ تھی۔ ایک خبر ہے کہ خواجہ آصف روس کے تین روزہ دورہ پر گئے ہیں۔ اس کے ذریعے روس کے ساتھ کیا معاہدہ ہو گا۔ میرے خیال میں نواز شریف کے قریب ترین دوستوں میں کوئی آدمی نہیں ہے جو اس طرح کے حساس معاملے میں کوئی مناسب بات کر سکے۔ نواز شریف اس سے پہلے ہر کمیٹی میں ہر معاملے میں اسحاق ڈار کو استعمال کرتے تھے۔ اب ان کی نظر خواجہ آصف پر ٹھہر گئی ہے۔ اللہ رحم کرے۔
سعودی عرب میں شہباز شریف گئے ہیں۔ وہ اس سے پہلے نواز شریف کے ساتھ بھی گئے تھے۔ ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ کوئی اچھا نتیجہ نکلے گا۔ میری گزارش ہے کہ چودھری نثار سے کوئی بڑا کام لیا جائے۔ نواز شریف کے لئے یہ بہترین موقع ہے۔ اتنا سچا، کھرا، دلیر اور وفادار دوست نہیں ملے گا۔ چودھری صاحب نے نواز شریف کو کبھی نہیں چھوڑا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38