راولپنڈی و اسلام آباد کا ہر شہری سوال کرتا ہے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کب اپنے گھروں میں واپس جائیں گے؟ یہ 10 لاکھ ڈالر کا سوال ہے جس کا وزیراعظم محمد نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے پاس جواب ہے اور نہ ہی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو اس بات کا علم ہے کہ انہیں کب اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت ملے گی کیونکہ جو لوگ ان ہیںشاہراہ دستور پر بٹھا کر گئے ہیں وہی ان کو اٹھا سکتے ہیں اس سوال کا میرے پاس بھی کوئی جواب نہیں البتہ میںایک بات پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ سب کچھ ہو سکتا ہے ’’کوئی مائی کا لال نواز شریف اور شہباز شریف سے استعفا نہیں لے سکتا‘‘ حکومتی حلقوں کی طرف سے مسلسل یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ دھرنے والے تھک ہار کر جلد واپس چلے جائیں گے جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری ایک ماہ اپنا ’’ سیاسی لشکر ‘‘ لے کر ’’ریڈ زون‘‘ پر حملہ آورہوئے تو ایسا دکھائی دیتا تھا نواز شریف حکومت چند گھنٹوں کی ’’مہمان ‘‘ ہے لیکن نواز شریف حکومت دھرنے میں شامل ’’بلوائیوں ‘‘ کے مہلک وار کے سامنے ڈٹ گئی اس دوران پوری پارلیمنٹ نے دھرنے والوں کے خلاف مورچہ لگا لیا اور پوری پارلیمنٹ آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی پشت پر کھڑی ہو گئی اور پھر پارلیمنٹ سے دھرنے والوں پر وہ گولہ باری کی گئی کہ’’الامان الاحفیظ‘‘۔پارلیمنٹ کی بساط لپیٹنے کی خواہشمند قوتوں کو ’’پسپائی ‘‘اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا ۔عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے’’سیاسی مقاصد‘‘ کے حصول میں اس لئے ناکامی ہوئی کہ عمران خان اپنے دعوئوں کے مطابق 10لاکھ تو بہت دور کی بات ہے 10ہزار لوگ بھی اسلام آباد نہ لا سکے جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی اس سے کچھ زیادہ لوگ اسلا م آباد نہ لا سکے وہ جنوری2013ء جتنے لوگ بلیو ایریا میں لے کر آئے تھے اس کا عشر عشیر بھی شاہراہ دستور پر نہیں لا سکے لہذا چند ہزار لوگوں کے ذریعے ان کا حکومت گرانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا سکرپٹ کے مطابق جب دونوں بھائیوں (ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان) نے حکومت کو گرانے کے لئے وزیر اعظم ہائوس اور پارلیمنٹ ہائوس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کر کے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا گیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھی نہیں کہ دھرنے میں کم وبیش ڈیڑھ ہزار ایسے لوگ شامل تھے جن کو حکومت ’’تربیت یافتہ‘‘ کارکن قرار دیتی ہے حکومت کو ان کارکنوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا پڑا پہلے معرکے میں ہی تحریک انصاف کے بیشتر کارکن فرار ہو گئے البتہ عوامی تحریک کے کارکن پولیس الجھتے رہے جسے لمحہ بہ لمحہ سخت کارروائی کرنے سے روکا جارہا تھا قبل اس کے کہ پولیس لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال سے شاہراہ دستور پر ’’بلوائیوں‘‘ کا قبضہ ختم کر دیتی اچانک ’’اوپر ‘‘ سے مزید کارروائی روک دینے کا حکم آگیا وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جنہوں نے تحریک انصاف کے ’’آزادی‘‘ اور عوامی تحریک کے’’ انقلاب‘‘ مارچ کو لاہور میں ہی روکنے کا پروگرام بنایا تھا جب حکومت نے ان کی ایک سنی تو انہوں نے وزیر اعظم کو اپنا استعفاٰ پیش کر دیا اس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان دونوں جلوسوں کو جی ٹی روڈ پر روکنا چاہتے تھے لیکن ان کو جلوسوں کو جی روڈ پر بھی روکنے کی اجازت نہیں ملی انہوں نے اسلام آباد کو محفوظ شہر بنانے کے لئے پولیس کی 40ہزار کی نفری طلب کر رکھی تھی جب دونوں جماعتوں کے کارکن وعدہ خلافی کرتے ہوئے ریڈ زون کی طرف بڑھنے لگے تو چوہدری نثار علی خان نے انہیں روکنے کے لئے طاقت استعمال کرنے کی ہدایات جاری کیں لیکن وزیر اعظم محمد نواز شریف نے انہیں ایک بار پھر طاقت کے استعمال سے روک دیا جس پروفاقی وزیر داخلہ نے دوسری بار وزیر اعظم کو اپنا استعفاٰ پیش کر دیا لیکن انہوں نے ان کا استعفاٰ مسترد کر کے اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی لیکن جب دھرنے والے وزیر اعظم ہائوس کی طرف بڑھنے لگے تو پھر چوہدری نثار علی خاں نے کسی کی نہ سنی اور طاقت کا’’ مناسب استعمال ‘‘کر کے انہیں پیچھے دھکیل دیا پولیس کارروائی پر ہی عمران خان نے چوہدری نثار علی خان کو طنزاً ’’ فیلڈ مارشل ‘‘ کا خطاب دے دیا ڈکٹر طاہر القادری اور ان کے ’’پیروکاروں‘‘ نے شاہراہ دستور پر قبضہ کر رکھا ہے جب کہ تحریک انصاف نے عملاً اپنے دھرنے کو ختم کر کے ڈی چوک پر رات کے جلسے میں تبدیل کر دیا ہے ہر رات کے مختلف پہروں میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری وزیر اعظم محمد نواز شریف سمیت ہر اس سیاست دان پر برستے رہتے ہیں جو دھرنے والوں کی مخالفت کررہا ہے اور وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کو’’ ڈیڈ لائن ‘‘دیتے دیتے تھک گئے ہیں اب تو دھرنے کے شرکاء کے چہرے بھی مرجھا گئے ہیں ان کو کوئی ’’خوشخبری‘‘ نہیں ملی ڈاکٹر طاہر القادری اپنے پیرو کاروں اور کرائے پر لائے ہوئے لوگوں کو پچھلے ایک ماہ سے زائد ’’غیر انسانی ماحول ‘‘ میں رکھ کر ان کی برداشت کا’’ امتحان ‘‘لے رہے ہیں شاہراہ دستور پر اس حد تک گندگی کے ڈھیر لگ چکے ہیں کہ کسی وقت بھی وباء پھیل سکتی ہے باہر سے آنے والا شخص زیادہ دیر تک شاہراہ دستور پر کھڑا نہیں رہ سکتا شاید یہی وجہ ہے ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے شرکاء کی تعدا د 18،20ہزار سے کم ہو کر 4،5ہزار رہ گئی ہے موسم کی شدت نے بھی دھرنے والوں کے اعصاب پر منفی اثرات ڈالے ہیں ڈاکٹر طاہر القادری جن کے لب و لہجہ میں حکمرانوں کے بارے میں شدت پائی جاتی ہے اگلے روز وزراء کو دھرنے میں آنے کی دہائی دے رہے تھے اور اس بات کی ضمانت فراہم کرنے کی پیشکش کر رہے تھے کہ ان کی آمد پر کوئی مخالفانہ نعرہ لگایا جائے گا اور نہ ہی انہیں کچھ کہا جائے گا کم از کم وہ آکر دیکھ تو لیں لوگ کس حال میں بیٹھے ہیں حکومت نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی ہے دونوں رہنمائوں کے لب و لہجہ میں کمزوری کا عنصر نمایاں ہو گیا ہے دوسری طرف ’’فیلڈ مارشل ‘‘ چوہدری نثار علی خان نے بھی پی ٹی وی اسلام آباد سنٹر اور پارلیمنٹ ہائوس میں داخل ہونے والوں کی’’ پکڑ دھکڑ‘‘ کے لئے قومی اخبارات میں مطلوبہ افراد کی شناخت کے لئے اشتہار شائع کرا کر دھرنے کے شرکاء میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کر دی ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت دونوں جماعتوں کی قیادت سے تھکا دینے والے مذاکرات کا کھیل بھی کھیل رہی ہے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان جلسے میں تو نواز شریف کا استعفاٰ لئے بغیر واپس نہ جانے کا اعلان کرتے تھکتے نہیں لیکن مذاکرات کی میز پر ان کی جماعت استعفے کے مطالبہ سے عملاً دستبردار ہو گئی ہے اور دیگر آپشنز پر بات چیت کر رہی ہے کچھ ایسی ہی صورت حال عوامی تحریک کی ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے استعفے سے پیچھے ہٹ نہیں رہی تھی اب حکومت سے اپنے اقتصادی ایجنڈے پر عمل درآمدکے لئے نیشنل ریفارمز کونسل کے قیام پر بات چیت کر رہی ہے حکومت اور دونوں جماعتوں کے درمیان کبھی مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اورکبھی کامیابی کی امید کی کرن نظر آنے لگتی ہے لیکن کوئی’’ سیاسی پنڈت‘‘ یہ پیشگوئی کرنے کے لئے تیار نہیں کہ دونوں کب بوریا بستر سمیٹ کر اپنے گھر کی راہ لیں گے ڈاکٹر طاہر القادری تو دھرنے میں ہی اپنے کنٹینر میں ’’محبوس ‘‘ ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ عمران خان کا اپنی نوعیت کا ’’انوکھا ‘‘ دھرنا ہے وہ خود ہر روز بنی گالا میں اپنے ’’محل‘‘ اور کارکن اپنے گھروں میں آرام کرنے چلے جاتے ہیں اور پھر رات کو ڈی چوک میں خوب’’ محفل ‘‘سجالیتے ہیں ان کے دو اڑھائی ہزار کارکنوں کے دبائو میں آکر نواز شریف استعفیٰ دینے والے نہیں۔ جس شخص سے 12 اکتوبر 1999ء کی شب بندوق کی نوک پر فوجی جرنیل استعفاٰ نہیں لے سکے اس کو ہر روز تعداد میں کم ہونے والا چند ہزار کا اجتماع کس طرح استعفیٰ دینے پر مجبور کر سکتا ہے میرا عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ استعفے کے بغیر جو کچھ مل رہا ہے اسے اپنی جیت بنا کر گھروں کو واپس چلے جائیں بصورت دیگر ان کی ’’سیاسی خود کشی‘‘ کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے ان کی مدد کے لئے کوئی ’’تھرڈ امپائر‘‘ آنے والا نہیں!
خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
Apr 16, 2024