اس طرف سے بڑی محبت سے میٹھے آموں کا تحفہ بھیجا گیا اور اوپر لکھا گیا
گر قبول افتدز ہے عز و شرف‘‘
ادھر سے بڑے اہتمام اور سلیقے سے سیلاب کا تحفہ بھی ارسال کیا گیا۔
اچھلتی مچلتی لہروں پر لکھا گیا۔
ڈوب کر مر جائیے یا تیر کر تر جائیے!
بندہ پرور جائیے سیلاب کو بھگتائیے!
1978ء کے بعد ایسا تباہ کن سیلاب اس بار تجارت اور دوستی کے ناطے آیا ہے…
دھن دولت کے ساتھ کھڑی فصلیں‘ صحت مند مویشی اور قیمتی جانوں کا نقصان ہوا… ابھی بپھرے ہوئے خونخوار پھنکارتے ہوئے ریلے جاری ہیں۔ نہ جانے کتنی بستیاں اجاڑ کر جائیں گے۔ کتنے لوگ ساتھ لے جائیں۔ کتنے گھر مسمار کر کے جائیں گے۔ کتنے غریبوں کو بے گھر اور بے در کر کے جائیں گے۔ جتنی تیزی سے بسے بسائے شہر اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ اتنی شدت سے ہزارہا اندیشے سر اٹھا رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ آفات ارضی و سماوی سے کوئی زمین عاری نہیں۔ مگر دنیا کے کئی ملکوں میں‘ ایسی آفات کے مقابلے کے لئے پہلے سے ہی پروگرام مرتب کر دئیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر دو چار سال کے بعد سیلاب آتا ہے۔ سندھ میں آئے یا پنجاب میںکئی جمہوری حکومتیں آ چکی ہیں جا چکی ہیں اور اپنے کارنامے گنوا چکی ہیں مگر ابھی تک کسی بھی جمہوری حکومت نے آفات سے نمٹنے کی تدبیر بروقت نہیں کی ایک محکمہ بنا دیتے ہیں۔ پھر وہ محکمہ رفتہ رفتہ ہاتھی بن جاتا ہے تنخواہیں‘ عملہ‘ مراعات۔ مگر کام کوئی نہیں۔ جب یہ معلوم ہے کہ ساون بھادوں میں جھڑی لگتی ہے جب یہ معلوم ہے ہمارا ہمسایہ قابل اعتبار نہیں۔ جب یہ معلوم ہے کہ ہمارے لا تعداد دیہات کناروں پر آباد ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ محکمہ موسمیات ‘ ماحولیات اور ’’ڈزاسٹر والے‘‘ سوئے رہتے ہیں۔ انتظار کرتے ہیں۔ قیامت آ جائے تو پھر ہم جاگیں گے۔ ابھی تک ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ سندھ کے اندر گذشتہ سیلاب کی زد میں آنے والے لوگ بھی بے خانماں پھر رہے ہیں۔ سیلاب کے دوران ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا۔ اشیائے خوردنی کے ٹرک تقسیم کرنا اور متاثرین کو پانی کی یلغار سے نکال لانا ہی کام نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں تین کام بہت اہم ہوتے ہیں۔
-1 متاثرین کو مال مویشی اور سامان سمیت محفوظ مقام پر پہنچانا۔
-2 ان کی رہائش‘ کھانے پینے اور علاج معالجہ کا بندوبست مستقل کرتے رہنا۔
-3 پانی اترتے ہی ان کو ان کے گھروں اور بستیوں کو پہلے سے بہتر انداز میں آباد کرنا ہمارے ہاں ایسے موقعوں پر ڈنگ ٹپائو کام اور پبلسٹی بہت کی جاتی ہے۔ لیکن پلاننگ کوئی نہیں ہوتی۔ اس لئے سیلاب تو چند دن میں اپنی کارروائی کر کے چلا جاتا ہے۔ حکمران طبقہ جگہ جگہ پیسوں کا اعلان کر کے اپنے راحت کدوں میں تھکن اتارنے لوٹ جاتا ہے۔ مگر تباہ حال خلقت فریاد کرتی رہ جاتی ہے۔ سیلاب کے دوران ہی ایک محکمہ ان کی دوبارہ آباد کاری کے کام پہ لگ جانا چاہئے۔ ہمیشہ دکھائی یہ دیتا ہے کہ سیلاب کے دوران ان تباہ حال لوگوں کی امداد کر دینے کے بعد اب کسی کو ان کی آباد کاری سے دلچسپی نہیں رہی… حالانکہ جس قدر رقم کا اعلان کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اس رقم میں تو انہیں پہلے سے بھی بہتر رہائش اور سہولیات میسر آ سکتی ہیں۔ مگر خلوص نیت شرط ہے ایسے موقعوں پر بھی کچھ لوگ اپنے ہاتھ رنگنے سے باز نہیں آتے۔
انتظامی معاملات میں ہماری جمہوری حکومتیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ یا تو ان کی انتظامیہ نا اہل لوگوں پر مشتمل ہوتی ہیں یا انہیں صرف نااہل لوگ خوش کر سکتے ہیں یا خوشامد پیشہ…؟
انڈیا تو پانی چھوڑنے سے باز نہیں آئے گا۔ پاکستان کی حکومت کو کس قسم کی پیش بندی ہر سال کرنی چاہئے۔ یہ سوچنے کی بھلا کسے فرصت ہے؟
جب اس قسم کے قیامت خیز سیلاب کا سامنا ہوتا ہے۔ لوگ چلانے لگتے ہیں۔ ڈیم … ڈیم اگر پاکستان میں بھی متعدد ڈیمز بروقت بنا لئے جاتے تو بپھرا ہوا پانی اللہ کی خلقت کوسز ا نہ دیا کرتا۔ ایسے ہی موقعوں پر کالا باغ ڈیم کی ضرورت اشد احساس ہونے لگتا ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم کو انڈیا کی خواہش اور کوشش پر موخر نہ کر دیا جاتا تو سیلاب کا یہ پانی عذاب کی بجائے پاکستان کے لئے رحمت ثابت ہوتا۔ جس کو پیاسی زمینیں سیراب کرنا تھیں۔ وہ پیاسی زمینوں کی کھڑی فصلیں تہس نہس کر کے پاکستانی حکمرانوں کو عبرت کا سبق دینا چاہتا ہے۔ سرائیکی و سیب کی قسمت میں سیلاب کی تباہ کاریاں وافر مقدار میں آتی ہیں… یہ علاقہ تو پانی کے لئے ویسے بھی ترستا رہتا ہے … مگر ان کی زمینوں کو یہ پانی عذاب اور سیلاب کی صورت میں ملتا ہے۔ اس علاقے میں لاکھوں ایکڑ رقبہ کو صرف کالا باغ ڈیم بننے سے پانی لگ سکتا ہے۔ بھارت کے ایماء پر پاکستان کے اندر کالا باغ ڈیم کا نام لینا بھی گناہ عظیم سمجھا جاتا ہے جن کو اس کی مخالفت کرنے کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ان کو بے نقاب کیا جائے…
دوسری اہم بات یہ ہے کہ سندھ طاس منصوبے کی تجدید اور ترتیب نو ہونی چاہئے اگر انڈیا ہمارے ساتھ مخلص ہے۔ ہم اس کے ساتھ رواداری برتنا چاہتے ہیں اور برابری کی سطح پر تجارت کرنا چاہتے ہیں تو دو کام پہلے کریں۔ جن لوگوں کو انڈیا کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے کا وظیفہ دے رہا ہے۔ وہ بند کرا دیں دوسرا یہ سندھ طاس معاہدے کی معیاد عالمی نکتہ نظر سے ختم ہو چکی ہے اور پلوں کے نیچے سے کئی ہزار کیوسک پانی بھی گزر چکا ہے اور ہر سال ہماری معیشت کو ڈبونے کے لئے حاضر بھی ہو جاتا ہے۔ اگر حکمران نریندر مودی کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنا چاہتے ہیں تو سندھ طاس معاہدہ نئے سرے سے ہونا چاہئے۔ اکیسویں صدی شروع ہو چکی۔ دنیا میں نئے نئے معاہدے ہو رہے ہیں اور پاکستان کو ایک بوسیدہ معاہدے کی سزا دی جا رہی ہے۔
حال ہی میں نریندر مودی مقبوضہ کشمیر گئے تھے۔ اور وہاں ’’زعفرانی‘‘ انقلاب کی نوید سنا کر آئے ہیں زعفران مودی جی کی پارٹی کا لکی کلر ہے۔ کارگل پر قبضے کے بعد اسے وہ سیاحوں کے لئے ایک خوبصورت ’’ریزرٹ‘‘ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی دوستی ’’مفت‘‘ میں لوٹنا چاہتے ہیں۔ سیلاب کے موسم میں مون سون کا سارا پانی پاکستان کی طرف چھوڑ کر ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ کا گولڈ میڈل حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری مگر رنگ چوکھا آئے…
مجھے تو اس آدمی کے انداز دوستی سے گلہ رہا ہے
جو مار دیتا ہے دوست ہو کر جو قتل کرتا ہے یار بن کر؟
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024