قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ امریکہ نے ترکی کے بیشتر مطالبات تسلیم کر لئے ہیں۔(ISIS) المعروف داعش تنظیم کے خلاف سخت کارروائیاں جاری ہیں انہیں کرُدوں کی بقاءکے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایک امریکی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکہ ان علاقوں پر تسلط جمانا چاہتا ہے اسی وجہ سے وہاں بمباری کر رہا ہے اور بھاری بجٹ صرف کر رہا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کوبان کا علاقہ جو شام کی سرحد پر واقع ہے اور جسے داعش نے دو ماہ سے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے، قریباً 200,000 کُرد پناہ گزین ترکی میں داخل ہو چکے ہیں جبکہ بقیہ آبادی کو اس بات کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ اگر داعش یہاں قبضہ کر لیتی ہے تو یہاں قتل و غارت گری کا امکان ہے، بشارالاسد حکومت ترکی کے خلاف طاقت کو متوازن رکھنا چاہتی ہے، ترکی نے اپنی سیاسی حکمت عملی اختیار کر لی ہے اور وہ داعش کے خلاف براہ راست جنگ کی بجائے دمشق میں حکمرانی کی تبدیلی میں دلچسپی لے رہی ہے۔ بیشتر غیر ملکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ داعش پر زمینی حملوں کے ذریعہ ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ وائٹ ہاﺅس کاعراق سے فوجیں بلانے کے بارے میں اختلاف رائے بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ڈیموکریٹک پالیسی کے مطابق عراق سے اتحادی فوجیں واپس بلا نا موثر حکمت عملی تھا جبکہ مخالف پارٹی ری پبلکن آج بھی بُش پالیسی کی حمایت میں کھڑی دکھائی دیتی ہے اور القاعدہ کے بعد اس کی کزن تنظیم داعش کے وجود نے اوباما پالیسی کو ضرب لگائی ہے۔ اوباما نے مشرق وسطیٰ میں داعش کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر عراق میں پندرہ سو امریکی فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ عراق کی صورتحال سے جان چھڑانے میں کامیاب دکھائی دیا مگر القاعدہ کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہا۔ سعودی عرب اور ایران مدمقابل کھڑے دکھائی دیتے ہیں جبکہ سعودی عرب کو بھی داعش سے خطرات لاحق ہیں۔ عرب ممالک ملوکیت سے محروم ہونا نہیں
چاہتے لہذا انہیں خلافت کسی صورت برداشت نہیں۔ عرب ممالک میں امریکہ اور اتحادیوں کے اپنے مفادات ہیں۔ پاکستان بھی اپنے مفادات کی فکر کرے اور اپنے ملک کے اندر داعش کی ”کزن تنظیموں“ پر کڑی نظر رکھے۔ داعش کا وجود پاکستان میں انکشاف نہیں، نام نیا ہے مگر وجود پرانا ہے۔کسی نام سے بھی پکارا جائے، یہ وہی لوگ ہیں جن کی پشت پناہی اسرائیل کر رہا ہے۔ اسلحہ بم بارود پیسہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کے لئے مہیا کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں امت مسلمہ کا تصور جو پہلے ہی مشکوک ہے ہمیشہ کے لئے ختم کر دینا چاہتے ہیں اور یہ کام مذہبی منافرت سے ہی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں تما م سنی شیعہ انتہاءپسند تنظیموں اور گروہوں کا تعلق غیر ملکی شیعہ سنی انتہاءپسند تنظیموں سے ہے لہذا داعش تنظیم کا پاکستان میں وجود حیرانی کی بات نہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کے کزن ہیں۔ مقصد سیاسی ہے۔ معاونت یہود و نصاریٰ کی ہے۔ پہلے ماحول بنایا جاتا ہے اور پھر اس کے پیچھے آیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ مرتدوں اور منافقوں نے اسلام کو ہمیشہ نقصان پہنچایا اور یہ دونوں قومیں بظاہر مسلمان کہلائی جاتی ہیں۔ تاریخ اسلام میں خلافت و ملوکیت کے لئے قتل و غارت گری نئی کہانی نہیں البتہ پاکستان کو اپنا گھر محفوظ کرنے کی ٹھوس حکمت عملی اپنانی ہو گی۔ پاکستان نے جمہوریت کی گود سے جنم لیا، قائداعظم نے خلافت و ملوکیت و آمریت کا ڈرامہ نہیں رچایا۔ عوام کو ووٹ کی طاقت دی اور جموں کشمیر کے عوام کو بھی ووٹ کی طاقت سے آزاد کرانا چاہتے تھے مگر زندگی نے مہلت نہ دی۔ پاکستان میں نئے نئے تجربوں کی گنجائش نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مفہوم ہی یہی ہے کہ عوام کی اکثریت جس شخص کو منتخب کرے، وہی اس ملک کا حاکم مقرر کیا جائے گا۔ اب رہا اگلا مسئلہ کہ طریقہ انتخاب ہی فراڈ ہے تو اس میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے مگر طریقہ کار نہیں بدلا جا سکتا۔ پاکستان القاعدہ، طالبان، داعش، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، لشکر صحابہ یا دیگر اقلیتی لشکروں اور جماعتوں کے تجربوں کے لئے معرض وجود میں نہیں آیا۔ پاکستان کے درودیوار پر داعش کے پوسٹر دیکھ کر حیران اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ سب قوم کو ہراساں کرنے کی سازش ہے جو اس ملک میں پہلے سے موجود داعش کی”کزن تنظیموں“ کی جانب سے کی جا رہی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024