پاکستانی سیاستدانوں کے آئے روز کے بیانات پر ان کا ذہنی معائنہ بھی کرانا چاہئے۔ اکثر کھسکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ اور طاہر القادری کا ذہنی معائنہ تو لازمی کرایا جائے۔ اپوزیشن تو اکثر عارضہ الیکشن میں مبتلا رہتی ہے۔ اس کا علاج فقط الیکشن ہیں۔ حکومت لا علاج ہے۔ باقی اداروں کو بھی ذہنی امراض لاحق ہیں۔ ادھر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا معائنہ بھی جاری ہے۔ وائٹ ہاو¿س کی پریس سیکرٹری نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر اپنے خطاب کے دوران الفاظ کی ادائیگی ٹھیک نہیں کر پاتے، یروشلم پنگا کی تقریر کے دوران بھی تقریر پھر گئی تھی۔ اس حوالے سے بہت سے مضحکہ خیز سوالات کیے گئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ 'صدر کا گلا خشک تھا، اس سے زیادہ کچھ نہیں'۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرمپ کا طبی معائنہ والٹر ریڈ میں ہو گا اور اس کی رپورٹس ڈاکٹر جاری کریں گے۔ یاد رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق ہفتہ قبل اپنے خطاب میں ٹرمپ الفاظ کی درست ادائیگی نہیں کر سکے تھے اور تقریر کے اختتام پر انہوں نے یونائیٹڈ اسٹیٹس کو یونائیٹڈ اشٹیٹس کہہ دیا تھا۔ اس پر امریکی میڈیا میں ٹرمپ کا خوب مذاق بنایا گیا۔ الفاظ کی نامناسب ادائیگی پر ٹرمپ کے ڈائمنشیا یا الزائمر میں مبتلا ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے وائٹ ہاو¿س کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اگلے برس طبی معائنہ کرائیں گے اور ثابت کریں گے کہ وہ صحت مند ہیں۔ ادھر پاکستان کے سپیکر قومی اسمبلی سمیت مسلم لیگ ن کی اکثریت کے حالات ٹھیک نہیں۔ طبیعت بوجھل سی رہنے لگی ہے۔ سپیکر ایاز صادق کو وزیراعظم جو نہیں بنایا اور عباسی نمبر لے گیا۔ اس کے بعد ان کو سیاست کب اچھی لگے گی۔ ورنہ اسی سیاست کی بدولت موصوف کا ایک بیٹا چار پاور کمپنیوں کے بورڈ کا چپکے سے ممبر بن گیا۔ ایک نہیں دو نہیں بلکہ چار چار ملتان لاہور اسلام آباد تک سب کچھ اپنی جیب میں۔ ابھی بھی سیاست سے گلہ؟ چیئرمین پی ٹی آئی کی طبیعت بھی بدہضمی کا شکار ہے۔ استعفیٰ کا شو پیش کیا ہے کہ انہیں بھی کوئی منائے۔ مریم اورنگ زیب سے سرد جنگ میں ہار بزرگ کو ہی ماننا پڑی۔ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی تاریخ کا امیر ترین صدر ہے۔ ٹرمپ پاکستان کا بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ہے۔ سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا۔ آصف علی زرداری بھی گو کہ امیر ترین صدر تھے لیکن ان کی امارت کا سفر بے نظیر سے شادی کے بعد شروع ہوا۔ امیر سیاستدان غریب کے جذبات سے کھیل تو سکتا ہے لیکن غریب کی حقیقی ترجمانی نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ زرداری اور نواز شریف کی طرح متکبر صدر اور امریکی تاریخ کا غیر مقبول صدر ثابت ہو رہا ہے۔ امارت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عمران خان بھی سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا۔ وہ بھی متکبر انسان ہے۔ جس روز پاکستان کو غریب حکمران نصیب ہو گیا اس دن پاکستان کا مقدر جاگ اٹھے گا۔ لیکن پاکستان کو کسی حاسد کی بد دعا ہے کہ اس زمین پر غریب کا پتر بھی اقتدار ملتے ہی ملک کا امیر ترین بن جاتا ہے۔ الطاف حسین کیا تھا اور کیا بن گیا۔ الا ماشا اللہ اداروں میں کئی روشن ستارے ہیں جو خیر سے غریب گھرانوں سے آئے اور امیر ترین بن کر گھر لوٹے۔ لطف تو تب ہے جب قبروں میں بھی دولت ساتھ لے کر جا سکیں۔ یہاں آکر بندہ مار کھا جاتا ہے ورنہ یہ بندہ ہوس میں انتہائی کمینہ ثابت ہوا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ جڑے ہوئے معمولی مولوی بھی علامہ اور شیخ الاسلام بن جاتے ہیں پھر ان کے سر پر ہی جوتے مارتے ہیں۔ طاہرالقادری کیا تھے اور اب شان و شوکت کا یہ عالم کہ امریکہ کینیڈا کی سکیورٹی دائیں بائیں حفاظت فرماتی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ جو بھی منسلک ہو گیا‘ دولت مند اور صحتمند بن کر گھر لوٹا۔ خود سیٹ، اولادیں سیٹ، خاندان سیٹ، بس ایک اپ سیٹ ہے تو اس ملک کا غریب اپ سیٹ ہے۔ امریکہ کا باپ یعنی اس کا پہلا صدر جارج واشنگٹن ایک عام انسان تھا۔ اس میں کچھ کمزوریاں تھیں مگر اس کی طاقت اس کی صاف ستھری نیت تھی۔ جارج واشنگٹن کے عیوب و صفات کے بارے میں صدر تھامس جیفرسن لکھتے ہیں کہ "کوئی بھی ذاتی خواہش رشتہ داری دوستی دشمنی صدر واشنگٹن کو ان کے فیصلے سے نہ ہٹا سکتی تھی"۔ بابائے پاکستان محمد علی جناح میں بھی یہی وصف اتم درجہ موجود تھا۔ لیڈر اور قائد وہ ہوتا ہے جسے خوشامد، چاپلوسی ، جھوٹ اور ریاکاری سے نفرت ہو۔ قائداعظم کو جھوٹ سے نفرت تھی۔ ایک نوجوان نوکری کے سلسلے میں قائداعظم تک پہنچا اور ان سے عرض کیا ”جناب میں بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہوں‘ آپ فلاں صاحب کو میری سفارش کر دیں گے تو مجھے نوکری مل جائے گی“ قائداعظم نے انکار سے پہلے نوجوان کا انٹرویو لینا شروع کر دیا‘ آپ نے اس سے پوچھا ”کیا تعلیم کے (دوران) تم سپورٹس میں حصہ لیتے رہے ہو“ نوجوان نے جواب دیا ”نہیں“ قائداعظم نے پوچھا ”کیا تم ادبی سرگرمیوں میں شریک رہے“ نوجوان نے انکار میں سر ہلا دیا۔ قائداعظم نے پوچھا ”کیا تم کسی دوسری اچھی سرگرمی میں حصہ لیتے رہے“ نوجوان نے اس بار بھی انکار میں سر ہلا دیا۔ قائداعظم برا منا گئے اور انہوں نے کہا ”تم اتنی نالائقی اور سستی کے باوجود مجھ سے توقع کرتے ہو میں تمہاری سفارش کروں گا“ نوجوان نے عاجزی سے جواب دیا ”جناب آپ میری سفارش کریں یا نہ کریں لیکن میں اپنے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتا“ نوجوان نے یہ کہا اور قائداعظم کے دفتر سے نکل گیا۔ قائداعظم نے نوجوان کو واپس بلایا اور اس سے کہا ”میں زندگی میں پہلی مرتبہ اپنا اصول توڑ کر تمہاری سفارش کروں گا لیکن تمہیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا“ نوجوان نے عرض کیا ”جناب آپ حکم کیجئے“ قائداعظم نے فرمایا ”تم زندگی میں آج کی طرح ہمیشہ سچ بولو گے۔ پاکستان میں الا ماشا اللہ سیاستدانوں کے چہروں پر نحوست برس رہی ہے۔ اس کا سبب جھوٹ اور کرپشن ہے۔ ٹرمپ کی طرح پاکستانی سیاستدانوں کو بھی ذہنی معائنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭