دارالحکومت کی احتساب عدالت کے باہر اس اہم کیس کی سماعت سے کچھ دیر پہلے ہنگامہ ہو گیا۔ جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی بیٹی مریم نواز اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف فرد جرم عائد ہونا تھی۔ اس ہنگامے کے بعد ”وکلائ“ کے ایک گروپ نے کمرہ عدالت میں نعرہ بازی ‘ احتجاج اور شور شرابے کا ایک طوفان کھڑا کر دیا جس پر احتساب عدالت کے جج نے عدالتی کارروائی ملتوی کر دی۔ مسلم لیگ ن کی مخالف سیاسی جماعتوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ یہ ہنگامہ ایک منصوبہ کا نتیجہ ہے۔ اس منصوبے کا مقصد احتساب عدالت کی کارروائی ملتوی کرانا تھا۔ حکمران جماعت کے مخالفین اس ہنگامہ کو سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے احتساب عدالت میں ان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کو روکنے کی درخواست دائر کرنے سے جوڑتے ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ ہنگامہ اس لئے کرایا گیا کہ احتساب عدالت کو بے بس کر دیا جائے اور وہ سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی اور داماد پر فرد جرم نہ عائد کر سکے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس اور ایف سی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کے وکلاءکی مڈبھیڑ کیسے ہوئی۔ یہ بات بھی حیرت کی بات ہے کہ ایک اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ایک پولیس آفیسر کو ایک ٹی وی چینل پر تھپڑ مارتے ہوئے دکھایا گیا۔اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ نواز شریف وزیراعظم نہیں ہیں لیکن ان کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیراعظم ہیں۔ شاہد خاقان عباسی وہ وزیراعظم ہیں جو کئی بار یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ملک کے اصل وزیراعظم نوازشریف ہی ہیں۔ ان کے ان بیانات پر میڈیا اور حکمران جماعت کے سیاسی حریفوں نے پھبتیاں کسنا شروع کر رکھی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعض مخالفین انہیں ڈمی وزیراعظم کہتے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل نے اپنے ایک کامیڈی شو میں شاہد خاقان عباسی کو ”ڈرون وزیراعظم“ بھی کہا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ جس طرح ڈرون کو کنٹرول کرنے والا کہیں دور بیٹھا ہوتا ہے اور ڈرون کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے اسی طرح موجودہ وزیراعظم کو دور بیٹھا کوئی شخص کنٹرول کر رہا ہے۔
شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ وہ ان کے ساتھ 12 اکتوبر 1999ءکو طیارہ سازش کیس میں گرفتار ہو کر جیل میں گئے تھے اور کچھ عرصہ اپنے لیڈر نواز شریف کے ساتھ جیل میں بھی رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کے والد مرحوم خاقان عباسی جو جنرل ضیاءالحق کے ایک قریبی اور معتمد دوست تھے نواز شریف کے بڑے حامی رہے ہیں۔ جب پیر صاحب پگاڑا نے 1985ءمیں جونیجو مرحوم کی حکومت میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نواز شریف کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری کر لی تھی تو یہ خاقان عباسی ہی تھے جنہوں نے امریکہ سے جہاں وہ پتے کا آپریشن کرانے گئے تھے جنرل ضیاءالحق کو فون کر کے کہا تھا کہ وہ نواز شریف کے حق میں بیان دیں اور پیر پگارا کی تحریک عدم اعتماد کی کوشش کو ناکام بنائیں۔ واقف حال لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جنرل ضیاءالحق نے نواز شریف کا کِلّا مضبوط ہے اسے کوئی نہیں نکال سکتا“ والا مشہور بیان خاقان عباسی کی تجویز پر ہی دیا تھا۔
اس خاکسار نے اسی کے عشرہ میں وزیراعلیٰ نواز شریف کو اپنی آنکھوں سے شاہد خاقان عباسی کی ایف سیون کی موجودہ رہائش گاہ پر ان کے والد خاقان عباسی سے ملاقاتیں کرتے اور ان کا شکریہ ادا کرتے دیکھا ہے کہ انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بات دوسری طرف چلی گئی ہے۔ احتساب عدالت میں ہنگامہ کی آسانی سے سمجھ نہیں آتی۔ حکومت مسلم لیگ ن کی ہے‘ پولیس اور ایف سی بھی وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔ جب احتساب عدالت نے وکلاءکو عدالت میں آنے کی اجازت دے رکھی تھی تو انہیں کیوں روکا گیا اور ہنگامہ برپا کیا گیا۔ بظاہر اس ہنگامے کا فائدہ سابق وزیراعظم ان کی صاحبزادی اور داماد کو ہوا۔ ان کیخلاف فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔ سابق وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں احتساب عدالت کی طرف سے فرد جرم عائد کرنے کو چیلنج کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ پچھلی ایک پیشی پر جب رینجرز کو احتساب عدالت کے باہر تعینات کیا گیا اور رینجرز نے نظم و ضبط قائم رکھا اور وزیر داخلہ کو بھی اجازت نامہ کے بغیر احتساب عدالت میں نہ جانے دیا تو وزیر داخلہ احسن اقبال بہت گرم ہوئے اور انہوں نے رینجرز کو برا بھلا کہا اور کہا کہ رینجرز کو کس نے بلایا۔ اس طرح رینجرز سے کنٹرول لے کر اب پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ سب کچھ احتساب عدالت کی کارروائی کو رکوانے کے لئے کیا گیا۔ اب تو احتساب عدالت کے جج نے ہنگامے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ مریم نواز نے بھی وزارت داخلہ سے اس سارے ہنگامے کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ یہاں احتساب کرنے کا نعرہ لگایاجاتا ہے لیکن جب احتساب ہونے لگتا ہے تو اس کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کی جاتی ہیں۔ کبھی انصاف کرنے والی عدالتوں اور ججوں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں مرعوب کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور کبھی کسی دوسرے طریقے سے قانون اور انصاف کا راستہ روکنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بااثر اور طاقتور طبقے جب جواب دہی یا احتساب سے بچ نکلتے ہیں تو پھر عام آدمی میں ناامیدی پھیلتی ہے کہ یہاں قانون کا اطلاق صرف غریبوں اور بے سہارا لوگوں پر ہوتا ہے۔ اس احساس سے مایوسی بڑھتی ہے اور ریاستی نظام اور عدل کے نظام پر اعتبار ختم ہو جاتا ہے جس کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہوتے۔ ایک نظریہ سازش یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن ملک میں خود حالات خراب کر کے مارشل لاءکا راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024