موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے ناقدین کا موقف یہ ہے کہ اس حکومت کا سارا فوکس میگا پراجیکٹس پر ہے۔ یعنی بڑی بڑی شاہراہیں‘ میٹرو بسیں‘ ٹرینیں اور اسی نوعیت کے ایسے منصوبے جو نمایاں طور پر نظر آتے ہوں۔ مقصد ووٹ حاصل کرنا ہے۔ عوام کو درپیش دوسرے مسائل جن میں تعلیم‘ صحت اور سب سے بڑھ کر روزگار کی فراہمی اس حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اپنے عوامی جلسوں میں یہ کہتے آ رہے ہیں کہ ہیومن ریسورس کی بہبود یعنی انسانوں کی فلاح و بہبود پر اس حکومت کی کوئی توجہ نہیں۔ وہ تو یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ میگا منصوبوں یعنی اربوں کھربوں روپے کے منصوبوں میں چونکہ پیسہ بنانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس لئے ان منصوبوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
حال ہی میں ملک میں جو مردم شماری کرائی گئی ہے اس کے نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 21 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ مردم شماری کے نتائج پر بھی اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا موقف یہ ہے کہ مردم شماری میں ڈنڈی ماری گئی ہے۔ ایم کیو ایم نے تو مردم شماری کے نتائج کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ کراچی کی شہری آبادی خاص طور پر اردو بولنے والوں کی آبادی کو جان بوجھ کر صحیح طور پر شمار نہیں کیا گیا اور ان کی تعداد کم دکھائی گئی ہے۔ ایم کیو ایم مردم شماری کے نتائج پر احتجاج کے پروگرام بنا رہی ہے۔ ایک تو پاکستان کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے‘ دوسرا اس آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا جواں سال ہونا معاشی اعتبار سے تو ایک اچھی خبر ہے کیونکہ کسی ملک کی معیشت کو ترقی دینے کے لئے جوان دماغ اور بازو کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے لئے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پریشانی کا سبب ہے۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی نوجوان تعلیمی اداروں سے پڑھ لکھ کر ورک فورس کا حصہ بن رہے ہیں۔ نیم خواندہ اور ناخواندہ نوجوانوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ کئی سیاستدان اور سماجی لیڈر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اڑھائی کروڑ پاکستانی بچے سرے سے سکول ہی نہیں جا رہے۔ نوجوانوں کے اس بڑھتے ہوئے سمندر کو سنبھالنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے لئے روزگار کی فراہمی ایک زبردست چیلنج ہے۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) روزگار کے بڑے مواقع پیدا کرے گا۔ ماہرین معاشیات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے سرمایہ کاری ناگزیر ضرورت ہے۔ پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی آتی رہی ہے۔ اب تو قوم کو مسلسل یہ دل شکن اور حوصلہ شکن خبریں مل رہی ہیں کہ پاکستان سے کم و بیش دو سو ارب ڈالر بیرون ملک منتقل کر دئیے گئے ہیں اور مزید پیسہ باہر جا رہا ہے اور یہ پیسے واپس لائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں جو کہ بے روزگاری کے خاتمے کا ایک اہم ذریعہ ہے اضافہ نہ ہونے کی وجہ ملک میں سیکورٹی کے مخدوش حالات ہیں۔ اس صورتحال میں ایک آپشن یہ ہے کہ کم سے کم نیم ہنر مند اور غیر ہنر مند نوجوان افرادی قوت کے لئے بیرون ملک روزگار کے مواقع تلاش کئے جائیں یا پھر انہیں ملکی صنعتوں میں کھپایا جائے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ءمیں لاہور میں جب دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی تھی تو یہ کانفرنس اس لحاظ سے پاکستان کے لئے ایک نعمت ثابت ہوئی کہ اس کے نتیجے میں لاکھوں غیر ہنر مند اور نیم ہنر مند لوگوں کو تیل کی دولت سے مالا مال عرب ملکوں میں روزگار مل گیا۔ اس وقت پاکستان کو 18 سے 20 ارب ڈالر سالانہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی ترسیلات کے ذریعے مل رہا ہے جو کہ پاکستان کی معیشت کو ایک بڑا سہارا فراہم کر رہا ہے۔ یہ ترسیلات عرب ملکوں کے علاوہ امریکہ اور یورپ سے بھی آ رہی ہیں۔
ملک کے اندر اور بیرون ملک نیم خواندہ اور ناخواندہ نوجوانوں کو مختلف شعبوں کے لئے ہنر مند بنانے کے لئے (نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن) کے نام سے جو ادارہ قائم کیا گیا ہے کہ وہ ایک قابل تحسین کام کر رہا ہے۔ اس کے سربراہ ایک سابق پولیس آفیسر ذوالفقار احمد چیمہ ہیں۔ ذوالفقار احمد چیمہ کا شمار ان چند پولیس افسران میں ہوتا ہے جن کی دیانتداری اور فرض شناسی کی ایک دنیا معترف ہے۔ گذشتہ دنوں ذوالفقار چیمہ صاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے ادارے اور اس کے کام پرتفصیل سے راقم کو بریفننگ دی۔ چیمہ صاحب نے بتایا کہ ان کا ادارہ پہلے سالانہ 25 ہزار نوجوانوں کو مختلف شعبوں جن میں تعمیرات‘ الیکٹرانک‘ کارپنٹری‘ عمارت سازی‘ ڈرائیونگ شامل ہیں اور دوسرے منصوبوں میں تربیت فراہم کرتا تھا اب پچاس ہزار نوجوانوں کو یہ تربیت دے رہا ہے۔ ہمارے ادارہ سے ہنر مند بننے والے نوجوان قوم کے لئے ایک بڑا اثاثہ بن رہے ہیں۔ ان ہنر مند نوجوانوں کو پاکستان کے اندر اور باہر ملازمتیں ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چیمہ صاحب نے بتایا کہ ہم اپنے ہنر مند نوجوانوں کے درمیان صوبائی اور قومی سطح پر مقابلے کراتے ہیں۔ ان مقابلوں میں پوزیشن ہولڈرز کو انعامات دئیے جا رہے ہیں اور انہیں سرٹیفیکیٹ دئیے جاتے ہیں۔ ان مقابلوں میں ہم ملک کے صنعتکاروں کو بھی دعوت دیتے ہیں۔ ہمارے ادارے میں ہنرمند بننے والے نوجوانوں کو جلد ہی روزگار مل جاتا ہے۔ بیرون ملک خاص طور پر عرب ملکوں میں بھی ہماری تربیت یافتہ مین پاور کے لئے روزگار کے دروازے کھلتے ہیں۔ ذوالفقار چیمہ نے بتایا کہ ہم نوجوانوں کو ان شعبوں میں تربیت دیتے ہیں جن کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ چیمہ صاحب نے یہ حیران کن فگر بھی بتائی کہ سنگاپور جو ایک چھوٹا سا ملک ہے کے زرمبادلہ کے ذخائر 552 ارب ڈالر ہیں۔ چیمہ صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ڈھیر سارے ذخائر انہیں وہ نوجوان کما کر دیتے ہیں جو مختلف شعبوں میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہیں۔ ان کی تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ مین پاور ان کی معیشت کی طاقت کا راز ہے۔ چیمہ صاحب سے گفتگو کے بعد میرا اس بات پر یقین اور بھی پختہ ہو گیا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کے سمندر کو اگر قابو میں رکھنا ہے اور ان کی جواں سال صلاحیتوں سے استفادہ کرتا ہے تو پھر ہمیں نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنا ہو گا۔ ورنہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے لئے ایک عذاب بن سکتی ہے۔ ذوالفقار چیمہ کی قیادت میں NAVTTC قابل تعریف کام کر رہا ہے۔
٭٭٭٭٭