کالم کے آغاز سے پہلے ایک بامعنی اور معنی خیز جملہ سنیے۔ میرے محبوب اور محترم استاد دانشور پروفیسر سید وقار عظیم کے صاحبزادے اپنے عظیم والد کے علمی اور تہذیبی وقار کو سنبھالنے والے سید انور وقار عظیم نے بتایا کہ صدر ابامہ نے برملا کہہ دیا ہے:
”صدر ٹرمپ کی صورت میں ایک نیا ہٹلر پیدا ہو گیا ہے“
انور وقار کا یہ جملہ اپنی معنویت کی وسعت میں پوری تاریخ رکھتا ہے۔ امریکہ کا ہر صدر دوسرے صدر جیسا ہوتا ہے۔ دانشور اور سینئر صحافی نوید چودھری امریکہ گئے پھر آ بھی گئے۔ ایک کتاب لکھ ڈالی جسے دوستوں نے امریکہ کا سفر نامہ کہا مگر کتاب اور اس کا نام اس خیال کی نفی کرتا ہے۔ ”ٹرمپ سے پہلے“۔ دوسری کتاب بھی بنتی ہے۔ وہ بھی نوید چودھری ہی لکھے گا۔ ”ٹرمپ کے بعد“۔ اور بقول غالب
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
نوید چودھری کو ایک اور خط یعنی کتاب لکھنا ہو گی۔ ممکن ہے لکھ رکھی ہو اور مناسب وقت کا انتظار ہو۔ میرے خیال میں سوال جواب سے زیادہ اہم اور مضبوط ہوتا ہے۔ جواب بدلتے رہتے ہیں۔ سوال قائم رہتا ہے۔
میرے قبیلے کے سردار شاعراعظم منیر نیازی نے کہا ہے:
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
منیر خان کا میرے لیے اعتبار اور پیار کا ایک امتزاج سے مزاج بنا تھا۔ بہت خوبصورت شاعرہ اور خاتون دانشور فیصل آباد آرٹس کونسل کی انچارج بہت اچھی دوست صوفیہ بیدار نے منیر نیازی سے پوچھا کہ ہمارے پاس بھی گاڑیاں ہیں مگر آپ ہر بار ”آﺅٹنگ“ کرنے کے لیے محمد اجمل نیازی کو بلا لیتے ہیں۔ تو بہت بڑے تخلیقی شاعر منیر نیازی نے کہا مجھے اجمل نیازی کے ساتھ اپنے لیے ایک اعتماد محسوس ہوتا ہے۔ یہ جملہ میرے لیے ایک نعمت کی طرح ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں ہر دوست کے اعتماد پر پورا اتروں۔ میں آج منیر نیازی کے لیے ایک متنازع بات کر رہا ہوں۔ میرے خیال میں منیر نیازی اردو شعر و ادب کی تاریخ میں سب سے بڑے شاعر ہیں۔ کئی شاعر ہیں جن سے منیر نیازی کا مقابلہ نہیں بنتا۔ اس کے لیے الگ کالم لکھوں گا۔
میں اور صوفیہ بیدار اکثر منیر خان سے ایک ساتھ ملنے چلے جاتے تھے۔ ہماری اپنائیت اور محبت دیکھ کر منیر نیازی کی اہلیہ محترمہ باجی ناہید منیر نیازی بھی ہمارے ساتھ بہت محبت رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ منیر نیازی نے مجھے کئی بار کہا کہ میرے بعد کوئی مشکل آئے یا کوئی ضرورت ہو تو محمد اجمل نیازی کے ساتھ رابطہ کرنا۔ منیر نیازی کی یہ بات بھی میرے لیے ایک اعزاز ہے۔ میں نے باجی ناہید منیر نیازی سے کہا کہ باجی میں آپ کا نوکر ہوں۔ بھائی بہنوں کے نوکر ہوتے ہیں۔ میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔ ہمیشہ منتظر رہوں گا۔
منیر نیازی کو قریب ہی ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔ سارے قبرستان میں سب سے نمایاں اور خوبصورت قبر منیر نیازی کی ہے۔ منیر نیازی کی وفات کے بعد ہماری خواہش تھی کہ انہیں اسی گھر کے صحن میں دفن کیا جائے تاکہ یہ گھر بھی آباد رہے۔ بعض اوقات قبر کسی کی یاد کو آباد رکھتی ہے۔ زندہ وہی ہے جس کی قبر زندہ ہے۔
باہو ایتھے اوہو جیندے قبر جنہاں دی جیوے ہو
اس وقت اس آرزو پر عمل نہ کیا گیا۔ ہم نے زیادہ ضد بھی نہ کی۔ ہم اس قبرستان جاتے ہیں جس کی شاندار کیفیت یوں بنی ہے کہ یہاں اردو کا سب سے بڑا انوکھا اور تخلیقی شاعر ہر وقت محو حیرت رہنے والا، حیرت کو نعمت کا درجہ دلانے والا بھی محو خواب ہے۔ انہوں نے زندگی میں بھی خواب ہی دیکھے۔ منیر خان نے اپنا ایک شعر سنایا۔ کسی نے محبوب شاعر دیکھناہوتا تو وہ منیر نیازی کے پاس حاضر ہوتا۔
کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
اس کے بعد میں نے محبوب شاعرہ پروین شاکر کا یہ شعر دوبارہ پڑھا تو مجھے اور مزا آیا
کو بکو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
منیر نیازی کی زبان سے یہ شعر سن کر میں نے کہا اے خان اعظم یہ شعر نجانے آپ نے کس کے لیے لکھا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ شعر آپ کے اپنے بارے میں ہے۔ منیر نیازی تو کوئی جملہ بھی بولتے تو شہر بھر میں چھا جاتا۔ جس طرح ہوا اپنی آنکھوں میں خوشبو بھر کے سارے شہر میں پھرتی ہے۔ صرف منیر نیازی محبوب شاعر ہیں۔ منیر نیازی کسی کے گھر نہیں جاتے تھے۔ وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں نظر آتے تھے تو وہ برادرم ذوالقرنین، نعیمہ بی بی اور بیٹے غالف کے پاس دکھائی دیتے تھے۔ احمد فراز بھی اس گھر میں ٹھکانہ کرتے۔ کبھی کبھی وہ لاہور آتے اور صرف نعیمہ اور ذوالقرنین کے گھر میں رہتے اور یہیں سے واپس اسلام آباد چلے جاتے۔
شہر کے سب اچھے دل والے یہاں آتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے دل میں کوئی تخلیقی کیفیت موجزن ہوتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے پیارے بھائی اور زبردست فنکار شجاعت ہاشمی کو بھی دیکھا۔ اس نے بتایا کہ صرف اسی گھر میں آتا جاتا ہوں۔ اپنے آپ سے پوچھوں تو کہتا ہوں منیر نیازی کے بعد محمد اجمل نیازی تو آئے گا۔
میں بھی یہاں آ جاتا ہوں جب مجھے کہیں پناہ نہیں ملتی۔ سفید اداسیوں کی چادر اوڑھ کر نعیمہ اور ذوالقرنین کے پاس چلا آتا ہوں۔ مجھے پناہ مل جاتی ہے۔ برادرم خاور نعیم ہاشمی بھی یہاں دیکھے جاتے تھے۔ اب نظر نہیں آتے۔ اب وہ بڑے علاقے میں چلے گئے اور وہاں کوئی اعلیٰ اور مشکل کام کر رہے ہیں۔ ہم ان کے لیے دعا گو ہیں۔
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
یہ کیسی زندگی ہے جس کے لیے منیر نیازی جیسے زندہ تر آدمی نے یاد کیا ہے۔ شاید اسی زندگی کے لیے فوت ہو گئے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024