جواب ہے کہ نہیں، اس لئے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا ہے کہ کل بھوشن کو اس کے منطقی انجام سے دوچار کیا جائے گا۔
مگر لوگوں کے دلوں میں وسوسے ضرورپیدا ہوتے ہیں کہ کشمیر سنگھ بھی بھارتی دہشت گرد تھا، را کا تربیت یافتہ تھا، اس نے لاہور میں دھماکوں کا اعتراف بھی کیا، اسے موت کی کال کوٹھڑی میںبند بھی کیا گیا مگر پچھلی حکومت کے ایک و فاقی وزیر برائے انسانی حقوق ( جو در اصل وزیر برائے بھارتی حقوق نکلا) نے اسے اپنی پاکستانی جھنڈے والی گاڑی میں واہگہ پہنچایا، سرحد پار کرتے ہی کشمیرسنگھ نے ببلیاں بجائیں کہ اس نے پاکستان کے چنگل سے رہائی کے لئے ڈرامہ رچایااور پاکستانیوں کو بےوقوف بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
اس وقت بھارت تو دھمکیاں دے ہی رہا ہے کہ پاکستان نے ایک بے گناہ بھارتی شہری کو ایران سے پکڑ کر موت کی سزا سنا دی،اسے صفائی کا حق نہیں دیا، اجمل قصاب کی طرح ا س کا اوپن ٹرائل نہیں کیا بلکہ کسی فوجی عدالت نے مقدمہ سن کراسے سزا دے ڈالی ، اس کا وڈیو اعترافی بیان بھی ایڈیٹ شدہ ہے۔بھارت یہ پراپیگنڈہ کرے تو کچھ عجب نہیں مگر پاکستان کی پارلیمان کے ارکان اور میڈیا کے بقراط اور بھارتی خیرات پر پلنے والی این جی اوز بھی شور مچا رہی ہیں کہ کل بھوشن کے ساتھ انصاف نہیں ہوا، اس لئے اسے پھانسی پر نہ لٹکایا جائے۔ارکان پارلیمنٹ نے مبینہ لا پتہ افراد کے معاملے پر اجلاس کا بائیکاٹ کیاا ور بھوک ہڑتال کی نوبت بھی آ گئی ہے مگر ان ارکان پارلمینٹ کو شاید ہی یہ توفیق ہوئی ہو کہ وہ اپنا کوئی وفد نیپال بھیجتے، اور ایک پاکستانی ریٹائرڈ فوجی افسر کے لاپتہ ہونے کا سراغ لگاتے یا اسلام آباد ہی میں بیٹھ کر اس کی گم شدگی پر احتجاج کرتے۔ اس کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے۔بس وہ فیشن میں لا پتہ افراد پر احتجاج کئے چلے جا رہے ہیں، کون سے لاپتہ افراد، کیا ریاست اور قوم کے خلاف دہشت گردی کرنے والوں کو اٹھا لینا ناجائز ہے، کیا امریکہ نے بھی یہ قانون منظور نہیں کر لیا کہ مشکوک افراد کے گھروں پر بلاا طلاع چھاپہ مارا جا سکے گاا ور انہیں مہینوں تک غائب رکھا جا سکے گا تاکہ ان سے تفتیش کی جاسکے۔ کیا کشمیر میں بھارتی فوج محض شک کی بنا پر کشمیری نوجوانوں کو گولیوں سے نہیں بھون رہی، امریکہ اور بھارت کے لئے یہ سب کچھ جائز اور ہم ٹھہرے انسانی حقوق کے مامے چاچے۔ہمارے دل میں کل بھوشن جیسے دہشت گرد کے لئے بھی ہمدردی کا سمندر موجزن ہے، یہ شخص اگر قانونی کاروائیاں کرنے کے لئے پاکستان آتا تھا تو حسین پٹیل کے نام کا پاسپورٹ کیوں استعمال کرتا تھا، بھارت کے پاس اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں، شاید بھارتی شردھالوﺅںا ور ایجنٹوں اور نمک حلالوں کے پاس کوئی جواب ہو ، وہ پاکستانی قوم کے سامنے ا سکی وضاحت فرما دیں۔
پاکستان میں میر جعفروں اور میر صادقوں کی کوئی کمی نہیں۔یہ قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپتے ہیں۔جس دن سے کل بھوشن پکڑا گیا ہے ، ان کے گوڈوںمیں درد جگر کی شکائت لاحق ہو گئی ہے۔
کس قدر ستم ظریفی ہے کہ بھارت کو تو کشمیر پر جارحیت کرنے اورکشمیریوں پر مظالم ڈھانے کی کھلی چھٹی ہے، مگر پاکستان میں جو شخص کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرے اور ان کی آزادی کی آرزو کرے، اس کے خلاف سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا ہم نے اسے سونے کے انڈے دینے والی مرغی سمجھ کر پال رکھا ہے ، یہ تو ان لوگوں کہ مہربانی ہے کہ قائد اعظم نے کشمیر کوپاکستا ن کی اقتصادی شہہ رگ کہا مگر ابھی ان لوگوں نے عظیم قائد کے خلاف زہر نہیں اگلا، اسی طرح بھٹو نے بھی نعرہ لگایا کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے(شاید بلاول بھٹو کو یہ معلوم نہیں) مگر اچھا ہو اکہ ابھی تک ہمارے میر صادقوں اور میر جعفروںنے بھٹو کے خلاف دشنام طرازی کی مہم نہیں چلائی۔ اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کنٹرو ل لائن کے عین اوپر جا کر اک عالم وارفتگی میں نعرے لگائے کہ آزادی! آزادی، آزادی (بلاول کو اس بارے بھی کسی نے نہیں بتایا) مگر بھارتی شردھالوﺅں کی مہربانی کہ انہوں نے محترمہ کے خلاف بھی زہر نہیں اگلا۔ ہمارے وزیر اعظم نواز شریف نیلابٹ پر کھڑے ہو کر کشمیریوںکے ساتھ اظہار یک جہتی کر چکے ہیں، جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی انہوںنے کشمیریوںکی کھل کر حمائت کی ،شکر ہے کہ انہیں بھی بھارتی شردھالوﺅںنے طعنوں کا نشانہ نہیں بنایا مگر اب کل بھوشن کیا پکڑا گیا، لگتا ہے کہ سارے بھارتی شردھالوﺅں کی جان کڑکی میں پھنس گئی ہے، انہیں خوف لاحق ہو گیا ہے کہ کل بھوشن نے پاکستانی کارندوں کی فہرست تفتیش کاروں کو تھما دی ہو گی اور اب ان لوگوں کو بھی کل بھوشن کے ساتھ ہی تختہ دار پر لٹکا ئے جانے کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے اسلئے وہ ہر قیمت پر اسے معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے پر تل گئے ہیں۔
کل بھوشن پہلا بھارتی حاضر سروس فوجی افسر نہیں جس نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہو، اس سے پہلے سمجھوتہ ایکسپریس کو بارود سے ا ڑانے اور خاکستر کرنے کا جرم بھی ایک حاضر سروس بھارتی فوجی افسر کرنل پروہت نے انجام دیا، بھارت نے باقاعدہ اسے گرفتار بھی کیا اورا سکی تفتیش بھی شروع ہو گئی مگر ممبئی حملے کے ابتدائی لمحات میں اس کے تفتیشی افسر کرنل کرکرے کو مبینہ طور پراجمل قصاب کے ہاتھوں مروا دیا گیا ۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، بھارت میں پٹھانکوٹ سانحے کے تفتیشی افسر کو بھی آدھی رات کو اس کی بیوی کے ساتھ بظاہر ڈکیتی کی واردات میںمروا دیا گیا۔اسی بھارت نے اوڑی حملے میں دو کم سن کشمیری طالب علموں کو گرفتارکیا اور تفتیش کا ڈرامہ رچانے کے بعد رہا کرنا پڑا ۔ ان تما م سانحوں میں پاکستان پر الزام تھا کہ ا سکے نان اسٹیٹ ایکٹرز نے دہشت گردی کا ارتکاب کیا ، ممبئی حملوں کے بعد تو بھارت نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو طلب کر لیا اور حافظ سعید پر مقدمہ چلانے کے لئے ان کی مانگ بھی کر دی مگر پاکستان نے کبھی نہیں کہا کہ اجمل قصاب اگر پاکستانی شہری ہے تو اس پر پاکستان میںمقدمہ چلایا جائے گا، نہ کرنل پروہت کو سمجھوتہ ایکسپریس کے پاکستانی مسافروں کو کوئلہ بنانے کے الزام میں مقدمہ چلانے کے لئے پاکستان نے مانگا ، مگر بھارت کا کوئی آدمی پاکستان میں پکڑا جائے تو ا س لاڈلے کو بھارت واپس مانگتا ہے کہ وہ اس پر خود مقدمہ چلائے گا۔
مگر بھارتی لالے کی چالیں کامیا ب نہیں ہو سکتیں، اب کل بھوشن پاکستانی پنجرے میں بند ہے اور ا سکے خلاف الزامات ثابت ہو چکے ہیں، پاکستانی قوم اسے مجرم سمجھتی ہے اور وزیرا عظم نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ کل بھوشن کو بہر صورت سزا ملے گی، وہ اس سزا کا مسحق ہے، وہ بھارت کا حاضر سروس فوجی افسر ہے، اس نے دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے اور دہشت گردی کے ملزموں کے مقدمے پاکستان میں فوجی عدالتیں سنتی ہیں اور ان پر فیصلہ دیتی ہیں اس لئے اس فیصلے کو متنازعہ بناننے کی کو ششیں ناکام ہو ں گی اور کل بھوشن اپنے انجام سے دوچار ہو کر رہے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024