11اپریل کو مَیں ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان میں ”نظریہءپاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید کے دفتر میں تھا کہ ایک خُوش پوش خُوش شکل اور خُوش رِیش صاحب وہاں آئے۔ شاہد صاحب نے اُن سے میرا تعارف کرایا۔ وہ 11 مئی 2013ءکے عام انتخابات کے دَوران بلوچستان کے نگران وزیرِاعلیٰ ڈاکٹر غوث بخش باروزئی تھے۔ انہوں نے شاہد صاحب سے پُوچھا ”محترم مجید نظامی صاحب کہاں ہیں“؟ شاہد صاحب نے کہا کہ ”جنابِ نظامی ”نوائے وقت“ کے دفتر تشریف لے جا چکے ہیں۔ اب آپ کی اُن سے مُلاقات ”نوائے وقت“ کے دفتر میںدو بجے ہو گی۔ فی الحال آپ اثر چوہان صاحب اور میرے ساتھ گپ شپ کریں!“۔ اُس وقت دِن کا ایک بجا تھا۔ شاہد صاحب نے ڈاکٹر باروزئی سے پوچھا ”آپ دیر سے کیوں تشریف لائے؟“ تو انہوں نے کہا کہ ”راستے میں بہت سی رکاوٹیں تھیں!“ مَیں نے عرض کِیا کہ آپ تو لیڈر ہیں۔ آپ کے والد صاحب سردار محمد خان باروزئی بھی وزیرِاعظم بھٹو کے دور میں بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ رہے ہیں۔ آپ راستے کی رُکاوٹیں دُور کرکے یا دائیں بائیں ہو کر بھی وقت پر آسکتے تھے! تو انہوں نے اپنے چہرے پر ایک خُوبصورت مسکراہٹ بکھیرتے ہُوئے کہا کہ ”مجھ میں یہی تو خامی ہے کہ مَیں دائیں بائیں ہو کر آگے نِکلنے کا فن نہیں جانتا۔ اِسی لئے مَیں آج کے دور کی سیاست کے لئے "Unfit" ہُوں“۔
مَیں نے پوچھا ڈاکٹر باروزئی صاحب! آپ 2 ماہ اور 16 دِن بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ رہے۔ اِس دوران کوئی ایسا کام جِس پر آپ فخر کر سکتے ہوں؟ اور کوئی ایسا کام بھی جس پر آپ کو بعد میں پشیمانی ہُوئی ہو؟۔ ڈاکٹر باروزئی پھر مُسکرائے اور بولے ”مَیں اگر چاہتا تو بلوچستان کے خراب حالات کا بہانہ کرکے عام انتخابات دو مرحلوں میں یعنی 4 ماہ اور 32 دِن میں کراتا اور اپنے اقتدار کی مُدت بڑھا لیتا لیکن مَیں نے ایک ہی مرحلے میں انتخابات کرا دیئے اور ہاں! جِس بات پر مجھے پشیمانی ہُوئی وہ یہ کہ مَیں نے اُس حلقے کی انتظامیہ پر اعتماد کِیا جہاں سے میرا بھائی انتخاب لڑ رہا تھا۔ انتظامیہ نے دھاندلی کرائی اور وزیرِاعلیٰ بلوچستان کے بھائی کو ہرا دِیا“۔ مَیں نے پوچھا بلوچستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دِیا کہ ”جب بھی کسی وفاقی حکومت نے "Balochistan Package" کے عنوان سے مراعات دِیں وہاں کے سرداروں کو دِیں۔ عوام کو کسی بھی "Package" سے فائدہ نہیں ہُوا“۔ ڈاکٹر غوث بخش باروزئی نے بتایا کہ ”مَیں اپنے مختصر سے دَورِ اقتدار کے حوالے سے بلوچستان کے مسائل کے حل کے بارے میں ایک کتاب لِکھ رہا ہُوں جِس کا عنوان ہے ”2 ماہ اور 16 دِن“۔ مَیں نے پوچھا ڈاکٹر باروزئی صاحب! اگر آف دی ریکارڈ نہ ہو تو کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ محترم مجید نظامی صاحب سے ملاقات کے لئے آپ کا ایجنڈا کیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ”مَیں جب بھی محترم مجید نظامی صاحب سے ملاقات کرتا ہُوں تو میرا ایک نکاتی ایجنڈا ہوتا ہے۔ مَیں جناب نظامی سے نظریاتی روشنی حاصل کرتا ہُوں اور پھر اُن کا نُورِ بصِیرت عام کر دیتا ہُوں“۔ مَیں نے اُن سے سابق وزیرِاعظم جناب ظفر اللہ خان جمالی کے بارے میں پوچھا تو وہ کافی دیر مسکراتے رہے پھر بولے محترم جمالی صاحب کے پاس کوئی خاص نُسخہءہے وہ ہر دَور میں IN رہتے ہیں“۔ مَیں نے کہا کہ پنجابی زبان میں اِس طرح کے نُسخے کو ”گِدڑ سنگی“ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر باروزئی نے کہا ”مَیں اِک پنجابی فِلم ویکھی سی اِک بندہ دُوجے نُوں کہندا اے پئی ”گِدڑ تُوں آپ ایں تے سِنگی میرے کولوں لَے لَے“ مَیں حیران ہُوا اور کہا ڈاکٹر صاحب! تُسیں تے بوہت چنگی پنجابی بولدے او؟۔ اُنہوں نے میری طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھا اُس کے بعد ڈاکٹر باروزئی سے شاہد رشید اردو میں گفتگو کرتے رہے لیکن میں پنجابی میں۔
ڈاکٹر غوث بخش باروزئی نے ڈاکٹر مجید نظامی صاحب سے اُن کے دفتر میں مُلاقات کی بعدازاں اُنہوں نے نمائندہ نوائے وقت سَیف اللہ سپرا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا کہ ”انگریزی لفظ "Good" (گُڈّ) کا مطلب ہے۔ اچھّا لیکن پشتو زبان میں ”گُڈّ“ لُولا لنگڑا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے اگر "Governance" (حاکمیت) پشتو کا گُڈّ ہو تو عوام کا بھلاکیا ہو گا؟۔ انہوں نے کہا کہ ”بلوچستان کے حالات اِتنے خراب نہیں جِتنے بتائے جاتے ہیں۔ بلوچستان کی محرومی کے ذمہ دار وہاں کے حکمران اور بااختیار طبقہ ہے۔ عوام کے مسائل حل کرنا اُن لوگوں کی ترجیح نہیں بلکہ اُن کے اپنے مُفادات ہیں۔ صِرف بلوچستان کے نہیں پورے مُلک میں حالات خراب ہیں۔ پُورے مُلک میں "Crime" (جرائم) کی "Franchise"´ کھُلی ہے اور کرائم اب "Corporate" بن گیا ہے“۔
"Franchise" کے کئی معنے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر باروزئی نے تاریخی حوالے سے بات کی ہو گی۔ فرانسیسی نژاد اٹلی کے "Saint Francis" نے 1209ءمیں ایک ایسے فِرقے کی بُنیاد رکھی تھی جِس کے رُکن ہر راہب اور راہبہ کو بہت سی پابندیوں اور قانونی حدُود سے اِستثناءکا پروانہ مِل جاتا تھا اور "Corporate" منظم شراکتی ادارے کو کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں ”کرائم فرنچائز“ ہر دور میں کھُلی رہی۔ ڈے اینڈ نائٹ سروس پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بُنیاد پر پھر جرائم کے منظم شراکتی ادارے وجود میں آئے اور پھلتے پھُولتے رہے۔ فوجی آمروں (اور جمہوری دَور میں بھی) جِس کو چاہا بڑی سے بڑی کُرسی پر بِٹھا دِیا گیا یعنی جِسے پِیا چاہے وہی سُہاگن! جناب محمد ابراہیم ذوق شاعری میں آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اُستاد تھے۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں سُہاگ پُڑا“ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ کہتے ہیں
”دُلہا دُلہن کی ہے، یہ عِلامت سُہاگ کی
اِک سُہاگ پُڑا بن کے آسماں آیا“
”سُہاگ پُڑا“ کاغذ کا وہ خوشنما پُڑا جس میں سُسرال والے خُوشبو کی چیزیں رکھ کر دُلہن کے گھر بھجواتے ہیں۔ حکمران بھی اپنے منظورانِ نظر پر مہربان ہوتے ہیں تو اُنہیں ”اِقتدار پُڑا“ بھجواتے ہیں۔ اِس طرح کے پُڑے پانے والوں کو ہر قِسم کا استثناءحاصل ہو جاتا ہے۔ علّامہ اقبالؒ کے عقِیدت مند کسی نظریاتی شاعر نے کہا تھا کہ
”ہم نے اقبالؒ کا کہا مانا
اور فاقوں سے روز مرتے رہے
جھُکنے والوں نے رِفعتیں پائِیں
ہم خُودی کو بلند کرتے رہے“
”عبادت سمجھ کر“ سیاست کرنے والوں میں سے اگر کسی کے پاس ”گِدڑ سِنگی“ نہ ہو تو اُسے بھلا ”اقتدار کا سُہاگ پُڑا“ کون بھجوائے گا؟۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024