اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کے صدور سالانہ اجلاس میں شمولیت کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا ممکنہ دورہ نیویارک کا ابھی تک حتمی اعلان نہیں ہو سکا مگر وزیراعظم میاں نواز شریف کی اجلاس میں شرکت متوقع ہے۔ دنیا بھر کے صحافی اقوام متحدہ کے اجلاس کی کوریج کے لئے نیویارک میں جمع ہوتے ہیں۔ پاکستان کی گزشتہ حکومتیں اپنے ہمراہ صحافیوں کی ’’جنج‘‘ لایا کرتے تھے البتہ گزشتہ برس اجلاس میں اس روایت کو توڑا گیا۔ وزیراعظم کی نیویارک آمد کی تیاریاں اور پروگرام مکمل ہیں مگر ملکی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم کی آمد کا سرکاری اعلان نہیں کیا جا سکا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے پاکستانی قوم افسردہ ہے لیکن ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں وزیراعظم نیویارک خود تشریف لائیں اور داخلی و خارجی ایشوز کو ہائی لائٹ کریں۔ بھارتی ہم منصب سے ملاقات میں ’’پرانی مسلم لیگ‘‘ کا منشور اور ایجنڈا اپنایا جائے۔ ’’امن کی آشا‘‘ بھارتی عیاری کے ساتھ مشروط ہے۔ پاکستانی میڈیا کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھا جائے۔ پسندیدہ صحافیوں کو ناشتہ کی میز پر بٹھانے سے گریز کریں۔ صحافی برادری کے ساتھ امتیازی سلوک غیر مناسب رویہ ہے۔ ایک پاکستانی وطن جانے کے لئے سامان باندھ رہا تھا۔ اس کے ایک دوست نے شرارت سے کہا ’’نیویارک ائر پورٹ پر باڈی سکریننگ مشینیں نصب ہیں، اس میں بندے کے اندر کا سب کچھ باہر آ جاتا ہے۔ پاکستانی صاحب نے سوٹ کیس میں سامان رکھتے ہوئے بڑبڑاتے ہو ئے کہا ’’جس ملک میں جا رہا ہوں وہاں سب ننگے ہیں‘‘ ۔۔۔! ’’اس حمام میں سب ننگے ہیں۔‘‘ بلا شبہ محاورہ پاکستان کے لئے بنا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی الیکشن میں کامیابی کے بعد پاکستان کے حالات جس تیزی کے ساتھ ’’ننگا پن‘‘ کا شکار ہوئے ہیں، اس پر ’’اِنا للہ و اِنا اِلیہ راجعون‘‘ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے وزیراعظم کا دورہ یقینی بنایا جائے تاکہ دنیا کو یقین دلایا جا سکے کہ پاکستان دنیا کی جمہوری ریاستوں میں شمار ہوتا ہے۔ ’’دھرنا اور بھنگڑا‘‘ مہینوں جاری رہنا صرف پاکستان کی جمہوریت کا کمال ہے۔ ماڈل ٹائون اور اسلام آباد کی خانہ جنگی کی مثالیں بھی صرف پاکستان میں ممکن ہیں۔ ناقدین و حاسدین کے مطابق میاں نواز شریف پاکستان کے کمزور ترین وزیراعظم ہیں جبکہ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں میاں نواز شریف کے سولہ مہینوں کے دورہ حکومت کے دوران جس قسم کی صورتحال پیش آ رہی ہیں، اس میں فوج کا آنا ناگزیر دکھائی دے رہا تھا مگر فوج کے راستے بند کرنے میں جمہوری حکومتوں نے اہم کردار ادا کیا۔ گو کہ مخالفین کے لئے یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے مگر فوج نے اپنا چہرہ مسخ ہونے سے بچا لیا اور جمہوریت نے اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا۔ وزیراعظم کی جمہوری طاقت کو بشمول امریکہ دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں شرکت ان کی ساکھ کو مزید مضبوط کرنے کا باعث بنے گی۔ بھارتی ہم منصب سے ملاقات بھی متوقع ہے۔ بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر، مسئلہ پانی، مسئلہ سیلاب، مسئلہ دراندازی و دہشت گردی اور مسئلہ بلوچستان کو سرفہرست رکھا جائے۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں بھارت کا پاکستان کی جانب پانی دھکیلنا قابل معافی نہیں۔ پنجاب کے سیلاب زدہ عوام کے مسکین و غمگین چہروں کو نظروں کے سامنے رکھا جائے۔ میاں نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں، ایک جمہوری نظام کے علمبردار ہیں، ترکی سے ’’تمغہ جمہوریت‘‘ کا اعزاز پا چکے ہیں، ملکی صورتحال کا صبر اور برداشت سے مقابلہ کر رہے ہیں، جمہوریت کی گاڑی کو خوش اسلوبی کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچانے کے قائل ہیں لہٰذا انہیں امریکہ آ کر دنیا کے سامنے اپنے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چینلجز کا مقدمہ لڑنا ہے۔ امریکی صدر کو باور کرایا جائے کہ پاکستان جارج بش کی دی ہوئی لعنت کے سبب ان گنت مسائل میں جکڑ چکا ہے۔ ڈرون حملوں میں کمی بلاشبہ امریکہ کی مثبت پالیسی ہے گو کہ ڈرون حملوں کو بنیاد بنا کر پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے عوام کو خوب بے وقوف بنایا۔ امریکہ کی غلامی کا مذاق اڑانے والے اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لیا کریں۔ اس امریکہ میں خدا نے عمران خان کو بیٹی جیسی نعمت سے نوازا۔ اس امریکہ میں عمران خان چندے اکٹھے کرنے آتے ہیں اور اسے تعمیر شدہ منصوبوں کے زعم میں لوگوں سے ووٹ مانگتے ہیں، ان منصوبوں میں پاکستان کے عوام کی کمائی شامل ہے۔ ان کی سیاسی پارٹی کا بجٹ بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے چندوں سے چل رہا ہے اور میڈیا کی فل کوریج کا بجٹ جن اقوام کے ذمہ ہے، اس کا ریکارڈ بھی اسرائیل اور امریکہ کی فائلوں میں محفوظ ہے۔ اس امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کو دنیا کی مضبوط ترین ’’ڈکٹیٹر شپ‘‘ کا خطاب دیا۔ اس امریکہ نے مشرف اور اس کے حواریوں کو ’’وفادار کتوں‘‘ سے تشبیہ دی۔ اس امریکہ سے شاہ محمود قریشی نے مفادات حاصل کئے۔ شاہ محمود قریشی جو پیر کے روپ میں مریدنیوں کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور مرید کی صورت میں ہلیری کلنٹن کے سر سے سر جوڑتے ہیں، وفاداری کے معاوضہ میں سینیٹر جان کیری کے پاس اپنے بیٹے کو ملازمت دلوائی اور دیگر معاملات سیدھے کرائے، اسی امریکہ کے پاس شیخ رشید اور چودھری برادران کے ریکارڈ موجود ہیں اور یہی امریکہ نام نہاد سکالر طاہر القادری کی آمد پر انہیں سیکرٹ سروس اور فنڈز مہیا کرتا ہے۔ دھرنا اور بھنگڑا کے لوگ، پہلی بار مشرف کے ریفرنڈم میں دکھائی دئیے، دوسری بار مشرف حکومت میں دکھائی دئیے اور تیسری بار اسلام آباد ڈی چوک کے ٹرکوں پر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی مخصوص ٹولہ ہے جس پر اسرائیل اورامریکہ کی کڑی نظر ہے۔ اس حمام میں سب غلام ہیں اور ’’غلاموں‘‘ سے کب اور کہاں کام لینا ہے، آقا جانتے ہیں۔ غلام آجکل پاکستان کی جمہوریت کمزور کرنے پر فائز ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کرپٹ لوگ ہیں مگر مشرف باقیات اور اسمبلی میں بیٹھے خطابات کرنے والوں میں انیس بیس کا فرق نہیں۔
پاکستان کو دنیا میں تماشہ بنا رکھا ہے۔ وزیراعظم پاکستان پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کریں اور بذریعہ خطاب پاکستان کو دنیا کے سامنے بطور ایٹمی قوت منوائیں۔ ’’ضرب عضب‘‘ کو درپیش مشکلات، مسائل، مجبوریوں پر آواز اٹھائی جائے۔ امریکہ کو احساس دلایا جائے کہ یہ جنگ سابق امریکی صدرجارج بش نے پاکستان پر مسلط کی جس کی پاداش میں پاکستان انتہائی غیر محفوظ اور دیوالیہ ہو چکا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے جمہوریت کو تقویت بخشی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں وزیراعظم یاد رکھیں کہ وہ ایک ایسے ملک کے حکمران ہیں جو دنیائے اسلام میں واحد ایٹمی قوت کے طور پر اُبھری اور جمہوری اعتبار سے ایک مضبوط ریاست کے طور پر اُبھر رہی ہے۔ امریکہ کی سر زمین پر کھڑے ہو کر پاک فوج کی ہمت بندھائی جائے۔ پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا رہا، بیرونی مداخلت بھی جاری ہے مگر پاکستان کی فوج نے خود کو سیاست سے الگ رکھا۔ دھرنا بھنگڑا سیاست بھی جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہے مگر حکومت نے اس سازش کو بھی بری طرح ناکام بنا دیا ۔ستمبر کے آخری ہفتے میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی مثبت اور مضبوط تصویر کشی وقت کی اہم ضرورت ہے ازلی دشمن بھارت کو بھی منہ توڑ جواب دینے کی اشد ضرورت ہے جو کہ پاک بھارت دو قومی نظریہ پالیسی اپنائے بغیر نا ممکن ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024