امریکی سیاست میں ریاست نیو ہیمپشائر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس ریاست سے ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار سینیٹر برنی سینڈرز اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے جیت لیا ہے۔ نیو ہیمپشائر کے بعد آئیووا دوسری اہم ریاست ہے جہاں صدارتی امیدوار کے لئے ووٹ ڈالے گئے۔ سینیٹر برنی سینڈرز اور ہیلری کلنٹن ڈیمو کریٹک پارٹی سے صدارتی امیدوار ہیں جبکہ اپوزیشن پارٹی ری پبلکن کے صدارتی امیدوار ارب پتی کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ مسلم مخالف اشتعال انگیز تقاریر کی وجہ سے مشہور ہیں۔ خاکم بدہن ٹرمپ امریکہ کا صدر بنا تو امریکہ کے مسلمانوں کے لئے امریکہ کی زمین مزید تنگ ہوجائے گی۔ بلاشبہ اقلیتوں کو صدر اوباما جیسا صدر شاید دوبارہ نہ مل سکے لیکن ہیلری کلنٹن بھی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے لئے متوازن سوچ رکھتی ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت ہیلری کلنٹن کو ووٹ دینے پر متفق نظر آتی ہے۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ لبرل ملک ہونے کے باوجود عورت کی حکمرانی کے بارے میں متعصب واقع ہوا ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں کبھی کوئی عورت حکمران نہیں رہی۔ ہیلری کلنٹن کے سیاسی تجربہ کا زمانہ قائل ہے جبکہ ان کی پارٹی کے دوسرے صدارتی امیدوار برنی سینڈرز سوشلسٹ خیالات کے حامل مشہور ہیں۔ برنی سینڈرز کا تعلق ریاست ہیمپشائر کی پڑوسی ریاست ورمونٹ سے ہے لہٰذا سینڈرز کا ہیلری کلنٹن کو ہرانا متوقع تھا۔ آنے والے مہینوں میں امریکہ کی تمام ریاستیں اپنی اپنی پارٹیوں کی حمایت کی نمائندگی کریں گی اور پھر جولائی میں پارٹی کے اجلاس میں حتمی امیدوار کا فیصلہ ہو گا جو نومبر میں صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کو 30 سال سے کم عمر ووٹروں کی 80 فیصد حمایت حاصل ہے۔ برنی سینڈرز وال سٹریٹ، بڑی کمپنیوں اور کارپوریشنز کے خلاف ہیں۔ امریکہ کا امیر کاروباری طبقہ برنی کو ووٹ نہیں دے گا۔ برنی کارپوریشنز سے فنڈز نہیں لیتے، انہیں چندہ دینے والے چھوٹے ڈونرز ہیں۔ برنی سینڈرز کے مقابلہ میں ہیلری کلنٹن کی کامیابی کی امید دکھائی دیتی ہے لیکن صدارتی انتخاب میں مقابلہ ٹرمپ اور ہیلری کے مابین ہوا تو ٹرمپ کی جیت سے مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ امریکہ کے متعصب ترین میڈیا فاکس ٹی وی کے ایک مباحثہ میں تجویز پیش کی گئی کہ امریکہ کو چاہیے کہ محمد نام کے افراد کی امریکہ آمد پر پابندی عائد کر دی جائے کیوں کہ ایسے لوگ ہمارے ہمسایوں اور گھروں میں گڑبڑ کر سکتے ہیں۔ کسی کا مجرمانہ ریکارڈ ہو یا نہ ہو، محمد نامی کسی شخص کو امریکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ پینل میں بحث چھڑ گئی کہ صدر اوباما حقائق سے غفلت برتتے رہے جس کی وجہ سے امریکہ غیر محفوظ ہو رہا ہے۔ داعش کے لوگ امریکہ میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ اوباما انتظامیہ مسلم ممالک کی فنڈنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ متعصب میڈیا پر مسلم مخالف مباحث جاری ہیں۔ امریکہ میں دہشت گردی کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہاہے اور اب تو محمد نام کو مبینہ طور پر ہدف بنایا جا رہاہے۔ امریکہ میں محمد نام کے افراد کی نائن الیون کے بعد سے ہی تفتیش شروع ہوئی ہے۔ مسلم ناموں خاص کر محمد نام والے شخص کو امریکہ داخل ہوتے ہی امیگریشن میں روک لیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے امریکہ کی زمین پہلے ہی تنگ تھی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم مخالف بیانات نے مزید پریشانی پیدا کر دی۔ صدر اوباما اپنے دور حکمرانی کے سات برسوں میں مسلمانوں کی حمایت میں کھل کر بولنے سے گریز کرتے رہے کہ ان پر مسلمانی کا الزام عائد کیا جاتا تھا، اب جبکہ گھر جا رہے ہیں تو پہلی بار مسجد میں وزٹ کیا تو مخالفین نے اس مسجد کو متنازعہ بنا دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیان نے الزام عائد کر دیا کہ بالٹی مور الرحمن مسجد جہاں گزشتہ دنوں صدر اوباما نے وزٹ کیا، 80 کی دہائی سے اپنی انتہا پسند سرگرمیوں کی وجہ سے ایف بی آئی کے زیر تفتیش ہے جبکہ پاکستان سے کچھ لوگوں نے اس مسجد پر احمدیوں کی مسجد ہونے کا شوشا چھوڑ دیا۔ تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ ہم 90 کی دہائی سے اس مسجد کی سرگرمیوں اور ماحول کو جانتے ہیں اور اپنے گزشتہ ایک کالم میں بالٹی مور اسلامک سینٹر کے بارے میں لکھ چکے ہیں، اس معروف مسجد سے ملحق اسلامی سکول میں ہم پڑھاتے بھی رہے اور ہمارے بچے پڑھتے بھی تھے۔ صدر اوباما اور ڈیمو کریٹک پارٹی سے بُغض رکھنے والے حاسدین و مخالفین کے بالٹی مور اسلامک سینٹر سے متعلق الزامات بے بنیاد ہیں۔ خدا وہ وقت نہ لائے جب ڈونلڈ ٹرمپ اس ملک کا صدر بنے۔ مسلمانوں سے شدید نفرت کرتا ہے۔ یہودیوں کی سپورٹ کے بل بوتے پر صدر بننے کی کوشش کرنے والا ٹرمپ خاکمِ بدہن جیت گیا تو امریکہ میںمسلمانوں کی نئی
نسلوں کا مستقبل تشویشناک ہو سکتا ہے۔ امریکی نوجوان نسل ڈیموکریٹک ہے، برنی سینڈرز کے صدر بننے کے مواقع کم ہیں البتہ ہیلری کلنٹن کی جیت کے لیئے دعا گو ہیں۔ صدر اوباما کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے آئیندہ سال بجٹ میں مختص کی گئی رقم کی بھی مخالفت کی جا رہی ہے۔ سال 2017ءکے امریکی بجٹ میں پاکستان کے لئے 86 کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔ نئے مالی سال کا مجموعی طور پر 4 ٹرلین ڈالر مالیت کا وفاقی بجٹ صدر اوباما نے منظوری کے لئے کانگریس بھجوایا ہے۔ بجٹ میں فوجی کارروائیوں کے لئے فنڈنگ کے ضمن میں افغانستان کے لیئے 2.5 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کے لئے تقریباً 46 کروڑ ڈالر مختص کی ہے۔ اپوزیشن کے صدارتی امیدوار ٹرمپ کے بیانات پاکستان اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رہے ہیں۔ یہ شخص اسرائیل اور بھارت کی اعلانیہ حمایت کرتا ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دےنے والا ٹرمپ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے کے خلاف ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد 33 لاکھ ہے جو کہ کُل آبادی کا ایک فیصد بنتا ہے۔ امریکی مسلمانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اس حقیقت کا صدر اوباما کئی بار اعتراف اور تعریف کر چکے ہیں۔ کینیڈا کے حالیہ سروے کے مطابق کینیڈا کی اکثریت بھی ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے حق میں نہیں، اس شخص کی انتہا پسند سوچ سے پریشان ہیں۔ صدر باراک حسین اوباما کی ذہانت اور قسمت نے انہیں دو مرتبہ امریکہ کا صدر بنایا، ان کے جانے سے امریکہ کی یوتھ اور اقلیتیں اُداس ہیں۔ ہیلری کلنٹن کی کامیابی امریکہ کے مسلمانوں کے لئے اطمینان کا باعث ہو گی۔