ماہرین کا کہنا ہے کہ فحش فلموں کی عادت بھی منشیات کی طرح ہوتی ہے، یہ لت کسی کو ایک بار لگ جائے تو اس سے جان چھڑانی مشکل ہو جاتی ہے۔باقاعدگی سے فحش مواد دیکھنے والے اس کے اسی طرح عادی ہو جاتے ہیں جیسے نشئی نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔فلمیں اخلاق کے ساتھ ساتھ دماغ کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ ایسی فلمیں دیکھنے سے انسان کے دماغ میں کیمیکل ”ڈوپامین“ کا اخراج بڑھ جاتا ہے جس سے انسان کو سکون ملتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر فحش فلمیں دیکھنے سے دماغ اس کیمیکل کے حوالے سے بے حس ہو جاتا ہے اور اس کی کم مقدار خارج ہونے پردماغ پرسکون نہیں ہوتا جس کے لیے اس شخص کو زیادہ فلمیں دیکھنا پڑتی ہیں اور اس طرح وہ ان فلموں کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے۔ دماغ کے اس طرح بے حس ہونے سے انسان ذہنی دباو¿ کا شکار رہتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فحش فلموں کے عادی شخص کا دماغ بالکل منشیات کے عادی افراد کی طرح سے کام کرتا ہے۔ فحش فلم دیکھنے کا خیال آتے ہی اس کا دماغ چمکنے لگتا ہے لیکن جب اسے فحش فلمیں دیکھنے کو نہ ملیں تو پژ مردہ اور ذہنی پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ گوگل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان ایک بار پھر انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ فحش مواد دیکھنے والا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے پاکستان میں تقریباً چارلاکھ فحش ویب سائٹس کو بلاک کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس مقصدمیں اسے کامیابی نہیں ملی ہے کیونکہ یاتووہ اس مقصدکے حصول میں مخلص نہیں ہیں اوریاپاکستانی قوم نے عزم کررکھاہے کہ ہرممکن طریقے سے وہ فحش سائٹس پر پہنچ پائے گی۔چھوٹے چھوٹے بچے اس قدر ماہرہیں کہ معمولی سی کوشش سے پراکسی (proxy) لگاکر اپنی من پسند ویب سائٹس سے محظوظ ہوتے ہیں۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو چارلاکھ فحش سائٹس بلاک کرنے سے پہلے چند ہزارپراکسی سائٹس کو بھی بند کرناچاہئے تھا۔پوری دنیامیں فحش مواددیکھنے میں جودس ممالک سر فہرست ہیں ، ان میں سے پہلے چھ ممالک اسلامی ہیں۔پاکستان کے بعدمصرکانام آتاہے۔مصرکے بعدایران، مراکش، سعودی عربیہ اورترکی کانمبرآتاہے۔ جہاں بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد دیکھا جاتا ہے۔جدیدتحقیق کے مطابق فحش مواد دیکھنے سے انسانی دماغ بری طرح متاثر ہوتا ہے، قوت حافظہ کمزور ہوجاتی ہے ،انسان میں احساس کمتری جنم لینے لگتا ہے اورزندگی میں آگے بڑھنے کاجذبہ ماند پڑتا ہے۔ مزیدیہ کہ فحش مواد دیکھنے سے چہرے کی تازگی اور خوبصورتی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذانئی نسل کو بے راہ روی سے بچانے کی خاطر فحش مواد دیکھنے کے مختلف ذرائع کاخاتمہ بہت ضروری ہے ، جن میں سے موبائل فون، انٹرنیٹ، سی ڈیز ، فلیش ڈرائیوز، ڈش ٹی ویز وغیرہ شامل ہیں۔ سی ڈیزسنٹر اورموبائل سنٹروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے ، جو اس قسم کے مواد کو پھیلانے کے بڑے ذرائع ہیں۔امریکہ کے ایک معروف جریدے میں بھی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ پاکستان جیسے ملک جہاں مذہب لوگوں کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے، جہاں فحش گفتگو معیوب فعل مانا جاتا ہے، اسلام اور پاکستانی پینل کوڈ کے تحت گناہ،جرم اور غیر قانونی فعل ہے ،اور اس بارے بات کرنا یا خیال کرناناپسندیدگی اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، لیکن حیران کن امر یہ سامنے آیا ہے کہ فحش ویڈیو، تصاویر اور مواد دیکھنے میں پاکستانی دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔انٹرنیٹ سرچ ٹریفک میں اس سلسلے میں حیران کن لحاظ سے پاکستانیوں کی شرح سب سے بلندہے اور گوگل سرچ پر فحش مواد کی تلاش میں دوسرے نمبر پر پاکستان ہے ، رپورٹ کے مطابق گوگل ٹرینڈز پر پاکستان کا رینک دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جب کہ اس سلسلے میں کینیا سرفہرست ہے۔ عادی فحش بینوں کی 50فیصد تعداد شادی سے باغی ہو جاتی ہے۔کم عمری میں اس عادت بد کا شکار ہونے والے زہنی کے ساتھ ساتھ جسمانی نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ چھپ کر فحش مواد دیکھتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی کو اِس بارے میں پتہ چلے۔ اِس وجہ سے ایسے بہت سے لوگ احساسِ تنہائی، احساسِ شرمندگی اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭