”خدمت تحریک“یا” گولن تحریک“سیکولر ترکی میں جذبہ خدمت سے نرم انقلاب بپا کرنے والے ایک صوفی منش سکالر، رائٹر اور سابق امام ترک محمد فتح اللہ گولن کے بارے میں جاننے کے لیئے ان کی تصانیف اور مضامین کا مطالعہ ضروری ہے۔ ترکی کے سابق امام اور مبلغ محمد فتح اللہ گولن امریکہ کی ریاست پنسلوینیا میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی تحریک کا مقصد انسانیت کی خدمت، امن، برداشت اور محبت ہے۔ ترک امام گولن کے اکثر مضامین امریکہ کے مختلف اخبارات اور جریدوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ انتہاءپسندی کے اس دور میں مسلمانوں کو ایک ایسی آواز کی ضرورت ہے جو مغرب میں اسلام کی حقیقی تصویر پیش کر سکے اور دنیا میں اس آواز کو تعظیم سے سنا جا تا ہو۔ امام گولن کا شمار ان پر اثر علماءدین میں ہوتا ہے جو نہ صرف ترکی بلکہ پوری دنیا میں اپنی علمی و فلاحی خدمات کی وجہ سے ایک قابل احترام مقام رکھتے ہیں۔ سیکولر حکومتوں کے دباﺅ کا شکار رہے اور قید و بند کی صعوبتوں کے نتیجہ میں انہیں امریکہ میں سکونت اختیار کرنا پڑی۔امام گولن ایک کسان خطیب کے بیٹے ہیں۔اتا ترک کی سوچ ترکی میں جو نقوش چھوڑ گئی اس نے رومی ؒ کے پیروکاروں کے لیئے زندگی مشکل بنا دی۔امام فتح اللہ گولن نے اپنے نرم انقلابی نظریہ کو نوجوان نسل میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔ 1966میں ترک نوجوانوں کے لئے پہلا مفت ہاسٹل بنایا، محبت سے دین کی جانب راغب کیااور محبت و خدمت کا یہ جذبہ پروردگار کو اس قدر پسند آیا کہ آج دنیا بھر میں ”گولن تحریک “ کسی تعارف کی محتاج نہیں رہی۔بلا شبہ موجودہ ترک صدر طیب اردگان کی کامیابی کے پس پشت بھی گولن موومنٹ کی سوچ کا رفرما ہے۔گو کہ یہ ایک غیر سیاسی تحریک ہے مگر جب سوچ تبدیل ہوتی ہے تو معاشرہ بھی تبدیل ہوتا ہے اور پھر حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ترکی کا سب سے بڑا اخبار ”زمان“ اور ٹی وی نیٹ ورک ”سمن یوک “ بھی گولن تحریک کا ہے جس کے تحت سات چینلز چل رہے ہیں۔ اس کے لیئے مختلف ممالک میں تعلیمی درسگاہیں،ہسپتال، چیریٹی تنظیمیں بھی قائم ہیں۔ پاکستان جب بھی قدرتی آفات کا شکار ہوا، ان تنظیموں نے بھی مدد کی۔ امام فتح اللہ کی تحریریں دور حاضر میں”دوا اور شفا“ کا کام دے رہی ہیں۔ حال ہی میں امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والا امام گولن کا مضمون (مسلمانوں کے لیئے انتہاءپسندی کے سرطان سے لڑنا ضروری ہے) دہشت گردی کے خلاف ایک علمی و فقہی مضمون ہے جس میں اسلام کی مثبت تصویر کشی کی گئی ہے۔ امام گولن لکھتے ہیں کہ ”ایک ایسے وقت میں جب خود کو اسلامک سٹیٹ کہلانے والا ”داعش“ نامی ایک گروہ مشرق وسطیٰ میں تباہی و بربادی جاری رکھے ہوئے ہے، اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کا ہر عمل تما م مسلم دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جب دہشت گرد اسلام کا لبادہ اوڑھتے ہیں تو اسلام کی شناخت اپنا لیتے ہیں لہذا اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ اس سرطان کو ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑنے سے روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہم بھی ایمان پر دھبہ لگنے کے عمل کے ذمہ دار ہوں گے‘۔ امام گولن کا کہنا ہے کہ ”قرآن کریم اور سیرت و حدیث کے ماہرین سلف و صالحین اور علماءکرام دہشت گردوں کے ان دعو¶ں کی سراسر نفی کرتے ہیں۔ ایک معصوم کی جان لینا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے (قرآن5:32 ) حتیٰ کہ دوران جنگ دفاع کے دوران بھی کسی بھی نہتے شخص خصوصََا خواتین، بچے اور مذہبی شخصیات پر حملہ کرنا رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ممنوع ہے۔ انتہاءپسندی کی آوازوں کی نسبت دیگر صف اول کی آوازیں سرخیوں کی جگہ حاصل نہیں کر پاتیں۔مگر میڈیا کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ہمیں نت نئے طریقے سوچنے ہوں گے جن سے ہماری آواز سب تک پہنچ سکے۔ مسلمانوں کو انسانوں کے حق،عزت،زندگی اور حریت کو عوامی سطح پر فروغ دینا چاہیے۔اللہ سبحان تعالیٰ کی مخلوق ہونے کے ناطے ہر انسان کی عزت کرنا اللہ کا احترام کرنا ہے ( 17:70قرآن) یہ وجہ ہے کہ ”خدمت تحریک“ نے 150 سے زائد ممالک میں سکول، تعلیمی ادارے اور مکالمے کے ادارے قائم کیئے ہیں۔ ترک امام گولن مزید لکھتے ہیں کہ ’ہر مسلمان کو دینی تعلیم فراہم کرنا اس لیئے ضروری ہے کہ اس سے انتہاءپسند اپنے ہتھیار سے محروم ہو جائیں گے جس کی مدد سے وہ مختلف نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، جب مذہبی آزادی سلب کر لی جائے تو پھر ایمان اندھیروں میں پروان چڑھتا ہے اور غیر تعلیم یافتہ اور بنیاد پرستوں کے ہاتھوں تشریح پاتا ہے۔اسلام میں مرد اور عورت کے یکساں حقوق ہیں۔عورتوں کو سماجی دباﺅ سے آزاد رکھنا چاہئے۔ مسلمانوں کے پاس حضرت عائشہ ؓ کی صورت میں ایک عظیم مثال موجود ہے جو اپنے وقت کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، استاد اور سماجی رہنماءکی حیثیت کی حامل تھیں۔عالمی برادری کو سمجھنا چاہیے کہ مسلمان حقیقی اور علامتی دہشت گردی کا شکارہیں۔حکومتوں کو ایسے بیانات اور اقدامات سے گریز کرنا چاہئے جن کا نتیجہ مسلمانوں کی تنہائی کی صورت میں نکلے۔ ظلم و زیادتی اور دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہیں گے جو مذہب کو توڑ مروڑ کر پیش کریں گے۔ جس طرح عیسائی قرآن کو جلانے اور Ku Klux Klan (کوکلس کلان) کے افعال کی توثیق نہیں کرتے اور بدھ مت کے پیرو کار روہنگیا مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے ظلم کی حمایت نہیں کرتے اسی طرح صف اول کے مسلمان ظلم و زیادتی اور دہشت گردی کے حامی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’تاریخی طور پر مسلمانوں نے انسانی تہذیب کے فروغ میں بہت کچھ کیا ہے۔ اسلام کے داغدار رخ کو بحال کرنا شاید انتہائی مشکل ہو مگر مسلمان اپنے معاشروں کو امن و سلامتی کی روشنی کے مینار بنا سکتے ہیں“۔ امام گولن جیسے سکالرز اہل مغرب کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد نہیں اور اسلام امن و محبت کا دین ہے۔ امریکہ میں مقیم مسلمان پر امن مسلمان ہیں اور ہمارے پاکستانیوں کی اکثریت شاید اس حقیقت سے لا علم ہے کہ حضرت مولانا جلال الدین رومی ؒ کی کتب کا شمار امریکہ میں (بیسٹ سیلر) میں ہوتا ہے جبکہ مغربی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا مواد حضرت مولانا رومی ؒ کا ہے اور قسطنطنیہ (استبول) نبی کریمﷺ کے نزدیک سر زمین حجاز وبیت المقدس کے بعد محبوب مقام ہے۔ اس سر زمین پر بڑی جید اور عالم فاضل شخصیات نے جنم لیا۔ سابق ترک امام فتح اللہ گولن کا شمار بھی ان چند اہل علم میں ہوتا ہے۔پیر رومیؒ سے نسبت رکھنے والا کوئی شخص کسی دوسرے انسان کو گزند پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ عشق نبی ﷺ کا پہلا سبق در گذر، محبت اور امن ہے،جو یہ نہ سیکھ سکا وہ اسلام دشمن ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38