ہم نے اپنے لڑکپن میں اپنے گھر میں جو ایک قبیلے کی طرح تھا جس شخصیت کا نام بہت زیادہ سنا وہ پیر حمیدالدین سیالوی صاحب تھے۔ ہمارا گھرانہ پیر پرست گھرانہ تھا۔ ہم نے عقیدتمندوں کا ایک ہجوم ان کی موجودگی میں دیکھا۔ ہمارے بزرگوں کا ایمان تھا کہ پیروں کی معرفت اللہ سے التجا کی جائے تو وہ ضرور پوری ہوتی ہے۔
میرے دادا جہان خان ذیلدار شہر کے سردار تھے۔ وہ دولت کی وجہ سے نہیں اپنی صلاحیت کی وجہ سے محترم سمجھے جاتے تھے۔
ایک واقعہ یاد آ گیا۔ اتنا بڑا جنازہ اس علاقے میں کہیں نہ دیکھا گیا۔ کئی شہروں سے لوگ امڈ کے آ گئے تھے۔ جنازہ شروع ہوا تو پہلی صف میں کھڑے ایک مضبوط آدمی سے کسی نے کہا کہ ساتویں آٹھویں نمبر پر وہ آدمی کھڑا ہے جس نے تمہارے باپ کا قتل کیا ہے۔
آج موقع ہے کہ تم قتل کا بدلہ لے لو۔ اس نے چغل خور آدمی کی طرف دیکھا تک نہیں اور کہا کہ آج سردار کا جنازہ ہے۔ میں کسی طرح کی افراتفری اور گڑ بڑ نہیں چاہتا۔ بدلہ لینے کے کئی اور موقعے آئیں گے۔ بعد میں اس کی مخالفوں کے ساتھ صلح ہو گئی اور اپنے شہر میں اچھے دوستوں کی طرح رہنے لگے۔
بابا جہان خان سیال شریف کے پیروں کے بہت معتقد تھے۔ بابا جی سب سے بڑے اور اولین پیر سیال کے مرید تھے تو سیال شریف کا سارا پیر گھرانہ ان کی عزت کرتا تھا۔ ہمارے خاندان کا ہر آدمی سیال شریف جایا کرتا ہے۔ میں پیری مریدی میںاتنی دلچسپی نہیں رکھتا مگر میں دوسرے گھر والوں سے بڑھ کر سیال شریف کی عزت کرتا ہوں۔ میں سیال شریف بھی جا چکا ہوں۔
پیر قمرالدین صاحب جو موجودہ پیر حمیدالدین صاحب کے والد ہیں بہت شفیق اور اعلیٰ مقام کے آدمی تھے۔
ہمارا سارا قصبہ اور ہمارے گھر والے تمام خواتین و حضرات سمجھتے تھے کہ ہم پر جتنی اللہ کی مہربانیاں اور احسانات ہیں وہ پیر سیال کی دعاﺅں اور توجہ کا نتیجہ ہے۔ میں نے پیر قمرالدین سیالوی سے بھی کئی ملاقاتیں کیں اور کچھ ملاقات پیر حمیدالدین سیالوی سے بھی ہے۔ انہیں یاد نہیں ہو گا مگر مجھے تو یاد ہے کہ میں نے ان کی دست بوسی کی ہوئی ہے اور ان کا پیار اور ان کی دعاﺅں کی تاثیر میرے دل میں تڑپتی ہے۔
اب تو میرے دادا بابا جہان خان بھی فوت ہو گئے ہیں۔ وہ تقریباً ایک سو گیارہ برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ انہوں نے زندگی میں کبھی نماز قضا نہیں کی اور پیدل لمبی سیر ضرور کی۔ ان دنوں لیٹرین وغیرہ نہ ہوتی تھی۔ لوگ بستی کے باہر جا کے رفع حاجت کرتے تھے۔ بابا جی کئی میل چل کر بہت دور جا کے رفع حاجت کرتے۔
جوانی ہی میں ہماری دادی فوت ہو گئی تھی۔ وہ بہت خوبصورت اور باوقار عورت تھی۔ اس کے بعد دادا نے شادی نہیں کی۔ دادا کی عمر چالیس سال کی تھی اور دوسری شادی کے لیے بہت لوگوں اور رشتہ داروں نے اصرار کیا مگر آپ نے شادی نہ کی۔ کہا کہ میں اپنے چوزوں کے درمیان بلی نہیں چھوڑنا چاہتا۔
میرے ابا کے دو بھائی اور بھی تھے اور ایک بہن تھی۔ کئی عورتوں نے بھی بہت کوشش کی جبکہ ایسا رواج ہمارے ہاں نہیں ہے۔ ایک عورت کو بہت تنگ آ کے بابا نے کہا کہ بیٹا میں شادی کے قابل نہیں ہوں۔
وہ اتنے صاحب کردار تھے کہ ایک دفعہ پانی بھرنے جانے والی کچھ عورتیں صبح سویرے منہ اندھیرے نہانے لگ گئیں مگر ایک بہت لمبے مرد کے سائے کو دیکھ کر کپڑے پہن لیے۔ جب وہ مرد قریب سے گزرا تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگیں تم نے تو خواہ مخواہ کسی مرد کا کہہ کر ڈرا دیا۔ یہ تو بابا جہان خان تھا۔ ان کے کردار کے لیے یہ ایک چھوٹا سا اشارہ ہے۔
پیر حمیدالدین سیالوی پیر ہوتے ہوئے بابا جہان خان کی بہت عزت کرتے تھے۔ کہتے تھے بابا جہان خان نے ہمارے آباءو اجداد کو دیکھا ہوا ہے۔ ان سے باتیں کی ہیں۔ ان سے ملاقاتیں کی ہیں۔
سیال شریف کا گھرانہ کبھی عملی سیاست میں نہ آیا مگر میانوالی اور سرگودھا میں وہ امیدوار بڑی آسانی سے جیت جاتا جس کی حمایت پیر سیال کر دیتے۔ اب تو باقاعدہ سیاست میں پیر حمیدالدین سیالوی آ گئے ہیں۔ وہ قائداعظم کی مسلم لیگ کے آدمی ہیں۔ مسلم لیگ اب (ن) لیگ بن گئی۔ پیر صاحب نے اپنے مریدوں سمیت (ن) لیگ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے رانا ثنااللہ کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ایک بات رانا صاحب کی پسند آئی کہ انہوں نے کہا میں اپنے ”سیاسی پیر“ شہباز شریف کے کہنے پر استعفیٰ دوں گا۔
بھکر سے برادرم علاﺅالدین خلجی تقریباً سب اخبارات کے لیے معاونت کرتے ہیں۔ خلجی پٹھان ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خلجی اور نیازی دونوں آپس میں کزن تھے۔ علاﺅالدین کا پوتا پیدا ہوا ہے۔ محمد یحیٰی خان خلجی۔
میں یہ خبر اس لیے دے رہا ہوں کہ مجھے لگتا ہے یہ بچہ بڑا ہو کر بھکر اور اپنے علاقے کے لیے نیک نامی کا باعث ہو گا۔ خلجی صاحب اچھے دل والے دوست ہیں۔ وہ حالات حاضرہ سے آگاہ رہتے ہیں اور یہی ایک اچھے اخبار نویس کا کردار ہوتا ہے۔
گوجرانوالہ سے نوجوان ادیب شاعر اور ایڈیٹر صدام ساگر ایک سہ ماہی پرچہ شائع کرتا ہے۔ وہ غریب آدمی ہے مگر اسے شعر و ادب کے ساتھ والہانہ لگاﺅ ہے۔ وہ ابصار عبدالعلی کے پاس بھی جاتا ہے۔ نوائے ادب گوجرانوالہ کا تازہ شمارہ مجید نظامی نمبر ہے۔ نظامی صاحب سے ساگر کی وابستگی ہر صفحے پر جھلکتی ہے۔
٭٭٭٭٭