چیمپئنز ٹرافی میں کامیابی نے کئی ناکام لوگوں کو قربان ہونے سے بچایا ہے، انہیں نئی زندگی دی ہے۔ ایونٹ میں کامیابی سے کئی لوگوں کے معاہدے بچ گئے ورنہ قربانی ضرور ہوتی۔ بہر حال ایک ایونٹ میں فتح نے کئی افراد کی نوکریاں پکی کر دی ہیں یوں سب اس کامیابی کے صدقے بہت لوگ بچ گئے۔اسی طرح ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی سے بھی بہت سوں کو ریلیف ملا ہے، بورڈ میں بیٹھے کئی لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ سب ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی پر خوشیاں منا رہے ہونگے تو ان لاڈلوں کی طرف بھلا کون اور کیسے دیکھے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے کئی ڈائریکٹرز نے سورج کی تپش ختم ہونے کے بعد دفتر کا رخ کرنے کی عادت بنا لی ہے۔ کچھ تو شاید گھر سے ہی حاضری لگوا لیتے ہونگے، بعض نے تو دفتری اوقات کار ہی اپنی مرضی سے مقرر کر لیے ہیں۔ کوئی انکو پوچھ نہیں سکتا کیونکہ نجم سیٹھی تو ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے کاموں میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس ان معاملات کو دیکھنے کا وقت ہی نہیں ہے۔وہ ان دنوں اتنے مصروف ہیں کہ اپنے خاص لوگوں کو بھی وقت نہیں دے پاتے ان کے ایک معتمد خاص بتا رہے تھے کہ چار مرتبہ فون کیا ہے لیکن اٹینڈ نہیں ہوا۔ ہم نے مزاح کرتے ہوئے کہا کہ پھر بہتر تھا کہ بین الاقوامی کرکٹ واپس نہ ہی آئے۔ بہرحال نجم سیٹھی کا مصروف ہونا تو پاکستان کرکٹ کے لیے اچھا ہے لیکن ساتھ اپنے معتمد خاص کا فون نہ سننا بہر حال پریشان کن ہے۔ اس وقت وہ ملکی کرکٹ کی سب سے اہم شخصیت ہیں اگر خاص لوگوں کے فون نہیں سنیں گے تو عام افراد کا کیا بنے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان حالات میں انہیں اپنے ڈسپلن میں کام کرنے والوں پر زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انڈیپینڈینس کپ لوگو کی تقریب رونمائی میں وہ میڈیا پر برہم نظر آئے۔ ان کے خیال میں میڈیا منفی باتیں پھیلا رہا ہے۔ ایسی خبریں دی جا رہی ہیں جن سے ملک کی ساکھ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کرکٹرز پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ ویسے تو وہ خود بہت باخبر ہیں۔ حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، معاملہ فہم بھی ہیں لیکن اس معاملے میں انہوں نے سب کو ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ اگر لاہور کے صحافیوں کی بات کی جائے تو ہم نے انہیں گزشتہ چند روز میں سخت موسم کے دوران بھی مثبت اور وطن درست رپورٹنگ کرتے ہوئے پایا ہے باوجود اس کے کہ سیکیورٹی ٹیم کی آمد کے موقع پر میڈیا نمائندوں کو بروقت معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں تھیں ناصرف معلومات کا شکوہ ہم نے سنا بلکہ اسمیں رابطے کا فقدان بھی نظر آ رہا تھا۔ یہ ایک اہم موقع ہے آپ میڈیا سے مثبت رویے کی توقع اور درخواست تو کرتے ہیں لیکن انہیں معلومات بروقت پہنچانے کا انتظام کرنا کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری نہیں ہے؟؟؟؟
زمبابوے کا دورہ پاکستان ہو یا پھر پاکستان سپر لیگ کا فائنل قذافی سٹیڈیم میں میچ کور کرنے والے سپورٹس کے صحافیوں نے ہمیشہ مثبت رپورٹنگ کی ہے۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ ان کی طرف سے منفی طرز عمل دیکھنے میں کم ہی آیا ہے۔
اب اگر لوگو کی تقریب رونمائی میں مائیک کی آواز بار بار بند ہو رہی ہو، سٹیج پر موجود مہمانوں کی آواز صحافیوں تک نہ پہنچے اور سوال کرنیوالا کھڑا ہو کر بولے پھر بھی آواز سٹیج تک نہ جائے تو کیا لکھا جائے کہ اتنی مدھر دھنیں بکھریں کہ ہال میں موجود ہر شخص دیوانہ وار رقص کرنے لگا۔ نا صرف یہ بلکہ گراو¿نڈ میں پریکٹس کرنے والے کھلاڑی بھی یہ دھنیں سن کر گراو¿نڈ سے پریس کانفرنس کی جگہ آ گئے۔ اگر کسی ریجن میں قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے صرف لیول ٹو کوچنگ کورس کے حامل شخص کو کسی ریجن کا ہیڈ کوچ لگا دیا جائے تو کیا لکھا جائے کہ دنیا کے بہترین کوچ کو فلاں ریجن کا ہیڈ کوچ مقرر کر دیا گیا ہے۔ قائداعظم ٹرافی کی ڈرافٹنگ کے دوران کوئی ہیڈ کوچ ریجنل پریزیڈنٹ پر چیخے تو کیا لکھا جائے کہ وہ بہت شیریں زباں ہے۔ کسی حقدار کھلاڑی کو نظر انداز کر دیا جائے تو کیا لکھیں کہ سب کام میرٹ پر ہو رہا ہے۔بورڈ کی مارکیٹنگ ٹیم کئی برسوں کے بعد بھی علاقائی ٹیموں کے لیے سپانسر شپ حاصل نہ کر پائے تو کیا لکھا جائے کہ بورڈ کی مارکیٹنگ ٹیم نے ریجنل ٹیموں کے لیے جو سپانسر شپ حاصل کی ہے اسکی رقم انڈین پریمیئر لیگ سے بھی زیادہ ہے۔
سیٹھی صاحب آپکا شکوہ اپنی جگہ لیکن کرکٹ بورڈ کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے ہمیشہ ملکی مفاد کو مد نظر رکھا ہے۔ لمبی لمبی ڈیوٹیاں کی ہیں۔ موسموں کی سختی برداشت کرتے ہیں۔ بعض اوقات ملکی و قومی مفاد میں اپنی آنکھیں بند کر کے سوئے ہوئے بورڈ حکام کو رازداری سے پیغام پہنچا کر جگانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ سب صحافی تو آپکے ساتھ ہیں کیا آپ انکے ساتھ کھڑے ہیں؟؟؟
جہاں تک تعلق ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا ہے، پاکستان سپر لیگ کی کامیابی کا ہے اسکے لیے آپکی کوششیں قابل قدر ہیں۔ ہر پاکستانی خواہ وہ کرکٹ کو پسند کرتا ہے یا نہیں ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی چاہتا ہے۔ اس مشکل وقت میں کرکٹ بورڈ کی اعلی انتظامیہ کو مزید متحرک اور فعال رہنے کی ضرورت ہے۔ بابو کے انداز میں کام کرنے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس لیے چیئرمین کرکٹ بورڈ کو بھی اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک سب پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
دعا ہے کہ ورلڈ الیون کا دورہ کامیابی سے ہم کنار ہو، اس کے بعد سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں بھی پاکستان کا دورہ کریں۔ آئندہ برس پاکستان سپر لیگ کے میچز کا انعقاد بھی ہو اور ملک کے تمام سٹیڈیمز ایک مرتبہ پھر غیر ملکی ٹیموں کی میزبانی کریں۔
جاتے جاتے ایک اور بات، سیٹھی صاحب بہت سمارٹ ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں نے آتے ساتھ ہی میڈیا نمائندوں کو باو¿نسر کیا تاکہ اس کے بعد انہیں کسی باو¿نسر کا سامنا نہ کرنا پڑے اسکا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ خیر جو بھی ہے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی سے زیادہ کچھ اہم نہیں۔
پاکستان زندہ باد