ساری عمر بے انصافیاں کرنے والے اور ایک بے انصاف نظام کے اختیارات اور فنڈز استعمال کرنے والے بھی تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ معاف نہ کرنا اور اپنے ساتھ اچھائی اور برائی کو یاد رکھنا نواز شریف کے مزاج میں ہے۔ وہ کوئی کام قبل از وقت یا بعداز وقت نہیں کرتے۔ وقت کا انتظار کرنا اور بروقت معاملہ کرنا دونوں بھائیوں کا اسلوب زندگی ہے۔ انتظار کرنا اور اعتبار کرنا جس کو آجائے وہ کامیاب رہتا ہے۔
ایک چھوٹی سی خبر ہے کہ ایک زمانے میں بہت اہم خیال کئے جانے والے وزیر شذیر سیاستدان حامد ناصر چٹھہ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ مجھے انتظار ہے کہ منظور وٹو کب تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی آخری سانسیں لے رہی ہے اور پنجاب پیپلز پارٹی کے صدر منظور وٹو ہیں میں سیاسی آدمی نہیں ہوں مگر میرا دل کہتا ہے کہ رانا آفتاب پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر ہوتا تو اس کا یہ انجام نہ ہوتا رانا صاحب سیاستدان ہوتے ہوئے کردار، سچائی، جرات اور استقامت والے آدمی ہیں۔
کوئی بتائے کہ حامد ناصر چٹھہ نے کتنی سیاسی جماعتیں بدلی ہیں۔ بڑے بڑے لوٹوں کو شریف برادران نے معاف کرکے اپنے ساتھ ملا لیا۔ مگر انہوں نے حامد ناصر چٹھہ اور منظور وٹو کو معاف نہیں کیا۔ نجانے اس میں کیا بات ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ اس میں راز کیا ہے۔ کیونکہ راز ایک بڑی کیفیت کا نام ہے۔
ایک زمانے میں حامد ناصر چٹھہ پنجاب کابینہ میں وزیر تعلیم تھے اور مجھے سزا کے طور پر لاہور سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔ میں گورنمنٹ کالج سمندری میں تھا۔ یہاں ویرانی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ویرانی میں حیرانی ہوتی ہے مگر پریشانی میں نظر نہیں آتی۔ میں لاہور آنا چاہتا تھا کہ یہاں کوئی بھی سرگرمی ممکن ہے۔ میں پی ایچ ڈی کے مقالے کی تیاری بھی کر رہا تھا۔ سول سیکرٹریٹ میں داخل ہوتے ہی بے پناہ صفات کے استاد پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور ڈاکٹر نذیر احمد سائیکل پر سامنے سے آئے۔ میں نے سلام کیا وہ سائیکل سے اتر پڑے۔ حسب عادت بہت گرمجوشی سے ملے پوچھا کہ کیسے آئے ہوئے ہو۔ میں نے اپنی کہانی کہی تو وہ مجھے وزیر تعلیم حامد ناصر چٹھہ کے پاس لے گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اگر واقعی انٹی سٹیٹ ہوں تو میرا مقام سمندر ہے سمندری نہیں ہے مجھے وہاں بھجوانے کا حکم کیجئے۔ ڈاکٹر نذیر بیٹھے رہے چٹھہ صاحب نے جب تک گورنمنٹ کالج کینٹ لاہور میں تبادلے کے آرڈر جاری نہ کئے۔ یہ ایک نیکی تھی۔ جو چٹھہ صاحب نے ڈاکٹر نذیر کی وجہ سے کی تھی۔ وہ بھی اولڈ راوین تھے اور میں کسی کی نیکی کو یاد رکھنے والا آدمی ہوں مگر مجھے چٹھہ صاحب کا تحریک انصاف میں جانا اچھا نہیں لگا۔ یہ عمران خان کے لئے اچھا نہیں ہے۔
پچھلے روز پشاور میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کے لئے لازمی سروس کا ایکٹ نافذ کرنے کے حوالے سے میں نے تحریک انصاف کے نعیم الحق سے کہا کہ یہ کام نواز شریف کے کام سے کتنا مختلف ہے۔ اپنے صوبے میں آپ لوگ بیورو کریسی کو کنٹرول کریں۔ ان سے کام لیں شاید یہ بات نعیم صاحب کو اچھی نہ لگی۔ انہوں نے جواب دینے کی بجائے صرف شکریہ کہا اور فون بند کر دیا۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ پشاور میں لازمی سروس کا ایکٹ اسلام آباد سے مختلف ہے کہ یہ عمران خان نے نافذ کیا ہے اور وہ نواز شریف نے نافذ کیا ہے۔ یہ خودمختاری ہے اور وہ نجکاری ہے۔ خود مختاری اور نجکاری میں کیا فرق ہے؟ ویسے میرے خیال میں ہسپتالوں کو خود مختاری دے دینا چاہئے تاکہ بیوروکریسی سے انہیں نجات مل جائے اور ان اداروں کی نجکاری بھی جائز ہے جو خسارے میں جا رہے ہیں۔ اس کا فیصلہ نہیں ہو گا کہ خسارے میں کون جا رہے ہیں۔ میں ڈاکٹروں اور پائلٹس کی ہڑتال کے خلاف ہوں۔ مریضوں اور مسافروں کو پریشانی ہوتی ہے۔ پی آئی اے تو ایک امیر کبیر محکمہ ہے مگر ڈاکٹروں کی تنخواہیں بہرحال معقول ہونا چاہئیں۔ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ملکوں میں سب سے زیادہ تنخواہ ڈاکٹر اور ٹیچر کی ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں ڈاکٹر کو ڈاکدار اور ٹیچر کو پھٹیچر سمجھا جاتا ہے؟
جو حالات نواز شریف کو درپیش ہیں وہی عمران خان کو درپیش ہیں۔ تو عمران کیوں پیش پیش ہیں۔ امیر مقام ڈاکٹروں کے پاس گئے تو عمران خان پی آئی اے کے ہڑتالیوں کے دھرنے میں جا کے بیٹھے۔ ایف آئی آر امیر مقام کے خلاف کٹتی ہے تو پھر عمران خان کے خلاف بھی کاٹی جائے۔ اب عمران خان کو اندازہ ہو رہا ہو گا کہ انہیں خیبر پختونخوا کی حکومت کیوں دی گئی تھی۔ عمران خان روایتی سیاست کر رہے ہیں اور اس میدان میں آج کل پاکستان میں شریف برادران سے بڑا کوئی سیاستدان نہیں ہے۔ یہ وقت بھی آئے کہ ہر کوئی کہے کہ ان سے بڑا حکمران بھی کوئی نہیں مگر اس طرز حکمرانی کے لئے قربانی کی ضرورت ہے؟
پی آئی اے والوں نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہی کرنا تھا تو بے چارے مسافروں کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی۔ اپنے دو بندے بھی مروا دئیے۔ ابھی تک پتہ نہیں چل رہا کہ کس نے مارے۔ رینجرز پر الزام لگایا گیا مگر کسی کو کوئی انعام نہیں ملا؟ سندھ پولیس پر بھی شک کیا گیا مگر قتل کی ایف آئی آر مسلم لیگ ن کے مشاہداللہ خاں، پرویز رشید اور شجاعت عظیم کے خلاف کاٹی گئی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ایف آئی آر خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ایف آئی آر سہیل بلوچ کی مدعیت میں درج کرائی گئی ہے ورنہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے لئے بھی سنا ہے کہ وہ مدعیت کے لئے تیار تھے ورنہ یہ کام ان کی اجازت کے بغیر تو ہو نہیں سکتا۔
پشاور سے جڑی ایک خبر پر نظر پڑی۔ مریم نواز کسی پارٹی رہنما کو گورنر کے پی کے لگانے کی سفارش کریں گی۔ ظاہر ہے یہ سفارش نواز شریف سے کی جائے گی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نواز شریف مریم نواز کی باتوں کو دھیان سے سنتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مخلصانہ تجاویز پیش کرتی ہوں گی۔ مریم نواز نے اس کے لئے ینگ پارلیمنٹیرینز کا اجلاس طلب کرکے ان کی رائے بھی لی ہے۔ یہ بھی اچھی بات ہے۔ باہم مشاورت سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ خبر میں اس کو تھنک ٹینک کا اجلاس کہا گیا ہے۔ شکر ہے پاکستان میں کوئی تھنک ٹینک بھی ہے۔ کسی ریٹائرڈ جرنیل کی بجائے کسی سینئر اہل اور مخلص سیاستدان کو یہ منصب دینے کے حق میں مگر مریم کو معلوم ہے کہ ایک مخلص اور جذبے والے کور کمانڈر جنرل ناصر جنجوعہ کو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد نواز شریف نے اپنے لئے قومی سلامتی کا مشیر بنایا تھا اور ان کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ مہتاب عباسی بھی سیاستدان ہیں اور انہوں نے اپنے سیاسی کیرئر کے لئے گورنری سے استعفیٰ دیا ہے ورنہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں استعفیٰ دینے کا رواج نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا کا گورنر دوسرے صوبوں کے گورنروں سے مختلف بااختیار اور اہم ہوتا ہے۔ پنجاب کا ایک گورنر سلمان تاثیر سیاستدان تھا اور اس کا تجربہ کوئی اچھا نہیں رہا تھا۔ جبکہ جنرل خالد مقبول نے معاملات کو بہت دانشمندی سے چلایا تھا۔ اگرچہ جنرل خالد مقبول نے مجھے ملازمت سے نکال دیا تھا کہ میں نے صدر جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے خلاف کیوں کالم لکھا ہے؟ نواز شریف نے جدہ سے مجھے شکریے کا فون کیا تھا۔ جبکہ میں نے کالم دل کے کہنے پر لکھا تھا۔ میری صرف ایک گزارش ہے کہ اربوں روپے کی سرکاری پراپرٹی کوڑیوں میں نہ بیچی جائے۔ وطن عزیز کی پراپرٹی کو اپنی پراپرٹی سمجھیں اور اسے بیچیں بھی اپنی پراپرٹی کی طرح؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38