فیض احمد فیض نے محبت پر شاندار نظم کہی ہے ؎
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ۔ اس شاندار نظم کو بڑے بڑے فنکاروں نے گا کر اپنے آپ کو فن میں زندہ جاوید بنا دیا ۔کچھ ایسی ہی کیفیت مخدوم جاوید ہاشمی کی تھی جب انہوں نے پنجاب ہائوس اسلام آباد کی دہلیز پر قدم رکھا تو وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور مسلم لیگ (ن) برطانیہ کے نائب صدر محمد ظریف راجا کو استقبال کے لئے منتظر پایا، لفٹ کے ذریعے انہیں ’’بالائی منزل ‘‘ لے جایا گیا جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے ’’ڈیرہ‘‘ ڈال رکھا تھا ، وہ مخدوم جاوید ہاشمی کی آمد کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے کم وبیش پانچ سال بعد میاں نواز شریف اور مخدوم جاوید ہاشمی کے درمیان ملاقات ہو رہی تھی یہ ملاقات میاں نواز شریف کی دعوت پر ہو رہی تھی جس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ مخدوم جاوید ہاشمی دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیارکر لیں گے لیکن راقم السطور نے لکھا تھا کہ ’’نواز شریف جاوید ہاشمی ملاقات تجدید تعلقات سے زیادہ کچھ نہیں ‘‘ جب میاں نواز شریف نے ایک بازو کی قوت سے محروم ’’بہادر ہاشمی ‘‘کو اپنے بازو ئوں میں بھینچ لیا تو مخدوم جاوید ہاشمی کے چہرے پر درد بھری مسکراہٹ دیکھی جا سکتی تھی ان کا چہرہ فیض احمد فیض کی غم و الم میں ڈوبی نظم کے اس مصرعہ کی عکاسی کر رہا تھا ؎ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ۔ یہ قصہ ہے نصف صدی کا دوچار برس کی بات نہیں مخدوم جاوید ہاشمی اور میں نے اکٹھے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا میں نے اپنے لئے صحافت کی پُرخار وادی کا انتخاب کر لیا جب کہ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنے لئے سیاست کا میدان، جس میں ہتھکڑیاں سیاست دانوں کا زیور اور جیل حجلہ عروسی ہوتا ہے ۔ بہادروں کی طرح جیل یاترا کرناکوئی ہاشمی سے سیکھے۔ انہوں نے جس جرات و استقامت سے جیل کاٹی اس سے ’’اک بہادر آدمی ہاشمی ہاشمی‘‘ کا خطاب مل گیا۔ پانچ سال قبل جب مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن) کو داغ مفارقت دے کر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے تو جہاں ان کے دیگر دوستوں کو دکھ ہوا وہاں ان میں، میں بھی شامل تھا میں نے مخدوم جاوید ہاشمی کے اقدام کو ’’ سیاسی خود کشی‘‘ قرار دے کر شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ میں بھی دوسرے دوستوں کے ساتھ مخدوم جاوید ہاشمی کی ’’سیاسی خود کشی‘‘ پر رو دیا۔ میں سمجھتا تھا کہ مخدوم جاوید ہاشمی ان ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جو اس وقت تحریک انصاف کو ’’افرادی قوت ‘‘ فراہم کر رہی ہیں۔ میں اس سیاسی قلابازی کا ذمہ دار مخدوم جاوید ہاشمی کو قرار دے رہا تھا میرا خیال تھا مخدوم جاوید ہاشمی نے میاں نواز شریف کے ساتھ زیادتی کی ہے لیکن جب مجھے یہ حقیقت معلوم ہوئی تو مخدوم جاوید ہاشمی کا تو قصور ہی نہیں، انہیں پارٹی پر قبضہ کرنے کی خواہش رکھنے کے مفروضے پر دھکے دے کر مسلم لیگ (ن) سے نکال دیا گیا، پھر انہوں نے جس جماعت کو اپنی جوانی دی، بڑھاپے میں اسے اتنا لتاڑا کہ پیچھے مڑ کردیکھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ حقیقی سیاسی کارکن کا یہ المیہ ہے کہ جب وہ ایک بار پٹڑی سے اتر جائے تو مشکل سے ہی دوبارہ چڑھتا ہے۔ اصولوں پر مبنی سیاست قدم قدم پر آگے بڑھنے کی راہ میں حائل ہو تی ہے سرمایہ داروں ، جاگیرداروں کے تمام عیوب چھپ جاتے ہیں وہ ہر ’’موسم ‘‘میں پارٹیاں تبدیل کر لیں کوئی ان سے سوال نہیں کرتا لیکن اگر کوئی سیاسی کارکن راستہ بھٹک جائے تو کوئی اسے معاف نہیں کرتا بلکہ’’سیاسی غلطی‘‘ اس کا ’’جرم ‘‘ بن جاتا ہے اور پھر پارٹی بدلنا اس کے لئے ساری زندگی کا طعنہ بن جاتا ہے۔ ملتان میرے لئے اس لئے بھی کشش کا باعث ہے کہ میرے دیرینہ دوست مخدوم جاوید ہاشمی کا مسکن ہے پچھلے دنوں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی فیڈرل ایگزیکٹو کو نسل کے اجلاس کے سلسلے میں ملتان جانا ہوا تو مخدوم جاوید ہاشمی کے دربار پر حاضری دی۔ سینئر صحافی میاں منیر احمد اور طارق عزیز کے ہمراہ ہونے والی ملاقات میں مخدوم جاوید ہاشمی نے پہلی بار بتایا کہ جس پارٹی کو انہوں نے اپنی جوانی دی، اپنے لیڈر میاں نوازشریف سے ملتان میں اپنی چوائس کے حلقے کے بارے میں فیصلہ کرانے کے لئے پیچھے پیچھے مارا پھرتا رہا لیکن وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے میں مدینتہ المنورہ میں اسی ہوٹل میں پہنچ گیا جس میں میاں نواز شریف سالہا سال سے قیام پذیر ہوتے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے بتایا کہ ’’وہ پچھلے ایک ہفتہ سے میاں نواز شریف سے حلقہ انتخاب کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے کہہ رہا تھا لیکن وہ کوئی بات سننے کے لئے تیار نظر نہیں آتے تھے میں نے ان سے کہا کہ وہ آج پاکستان واپس
جا رہے ہیں میرے بارے میں فیصلہ کر دیں جب انہوں نے ملاقات کے لئے وقت دیا تو انہوں نے گفتگو کا آغاز اس جملہ سے کیا ’’ہاشمی صاحب! آپ میرا کیا بگاڑ لیں گے‘‘ میں ان کا یہ فیصلہ سن کر حیران و ششدر رہ گیا۔ میں نے کہا کہ میاں صاحب ! آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ میرے لیڈر ہیں میں کبھی آپ کے بارے میںایسا سوچ سکتا ہوں لیکن مدینے والی سرکار کی نگری سے بھی مجھے میاں نواز شریف نے مایوس واپس لوٹا دیا۔ میں نے آخری بار میاں نوازشریف سے اس معاملہ پر اس وقت بات کی جب وہ لاڑکانہ جا رہے تھے میں بھی ان کے ساتھ لاڑکانہ چلا گیا، سفر کے دوران میاں نواز شریف کو اپنے نکتہ نظر کا قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن میاں نواز شریف میری کوئی بات توجہ سے سننے کے لئے تیار نہیں تھے، ان کے ہمراہ سینیٹر پرویز رشید بھی تھے وہ مجھے میری آبائی نشست پر سید یوسف رضا گیلانی کی ضمنی انتخاب میں حمایت کا مشورہ دے رہے تھے تو میں نے ان کو یہ کہہ کر خاموش کرا دیا یہ میرا اور میاں نواز شریف کے درمیان معاملہ ہے آپ اس میں مداخلت نہ کریں میں جہاز سے اُترا تو میاں نواز شریف مجھے گاڑی تک چھوڑنے کے لئے اصرار کرنے لگے لیکن میرے انکار کے باوجود وہ مجھے گاڑی تک بٹھانے آئے اور میری گاڑی کا دروازہ کھولا، جب میں جانے لگا تو میں نے گاڑی کا شیشہ اتار کر کہا ’’میاں صاحب ! ہمیشہ کے لئے خدا حافظ ‘‘ میں نے ان کو پارٹی چھوڑنے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا ممکن ہے اس دوران ان کی طرف سے کوئی پیغام آجاتا تو میں پارٹی نہ چھوڑتا لیکن جب میں نے تحریک انصاف جائن کرنے کا فیصلہ کر لیا تو میں نے کسی کی نہ سنی ۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی باتیں سن کر مجھے ان کے موقف میں وزن نظر آیا ان کو تحریک انصاف جائن کرنے کو اپنی بڑی سیاسی غلطی تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے اگست2014ء میں ’’جوڈیشل مارشل لاء ‘‘ کو بے نقاب کر کے جس طرح نواز شریف کی حکومت کو بچا لیا اس کا اعتراف نہ صرف میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کرتے ہیں بلکہ ہر سیاسی شعور رکھنے والا ان کے کردار کو سراہتا ہے۔ انہوں نے ایک بہت بڑی سازش کو ناکام بنا دیا اب جو میاں نواز شریف کو ’’نا اہل‘‘ قرار دیا گیا تو اس کے خلاف سب سے توانا آواز مخدوم جاوید ہاشمی کی تھی جنہوں نے میاں نواز شریف کی ’’نااہلی‘‘ کو 2014ء کی کڑی قرار دیا ۔ ان کے موقف کی صداقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے اس آدھے انسان پر کسی کوہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں ہوئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پچھلے تین سال اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ڈیڑھ دو سال سے مخدوم جاوید ہاشمی کے لئے میاں نواز شریف کے دل میں محبت بیدار کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ لیکن وہ اس معاملہ پر کوئی بات نہیں کرتے تھے اچانک ایک روز ان کے دل میں مخدوم جاوید ہاشمی کے لئے محبت موجزن ہوئی تو انہوں نے مخدوم جاوید ہاشمی کو فون کر ڈالا یہ ان کا پانچ سال میں مخدوم جاوید ہاشمی سے پہلا ٹیلیفونک رابطہ تھا ۔ دونوں اطراف سے محبت کا اظہار بہ زبان شاعر ہو رہا تھا ؎ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔ میاں نواز شریف نے ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ کھچے ہوئے اسلام آباد چلے آئے جب مخدوم جاوید ہاشمی نے میاں نواز شریف سے ملاقاتیوں کے لئے مختص کمرے میں قدم رکھا سب سے پہلے مریم نوا ز کی آواز سننے میں آئی ’’ویلکم بیک ان ہوم ‘‘۔welcome back in home یہ ملاقات دونوں رہنمائوں کے درمیان ’’تجدید تعلقات‘‘ سے زیادہ کچھ نہ تھی ۔ مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے لئے پنجاب ہائوس آئے اور نہ ہی ان سے شمولیت کا تقاضا کیا گیا ۔دونوں کے درمیان گلے شکوے کے بعد برف بھی پگھل گئی اگر یہ کہا جائے کہ یہ ملاقات مخدوم جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ (ن) میں واپسی کی بنیاد بن سکتی ہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ پیپلز پارٹی مخدوم جاوید ہاشمی کے مسلم لیگ سے نکالے جانے کا ذمہ دار چوہدری نثار علی خان کو قرار دیتی ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے دونوں کے درمیان ایسا کوئی ایشو نہیں تھا کہ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرتے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے چوہدری نثار علی خان پچھلے ڈیڑھ دو سال سے ہاشمی کی باعزت واپسی کے لئے کوشاں تھے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے مجھ سے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ چوہدری نثار علی خان سنجیدگی سے میری واپسی کوشش کرتے رہے، ملاقات کے بعد وہ واپس جا رہے تھے تو لفٹ سے باہر نکلتے ہوئے ان کا میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان سے آمنا سامنا ہو گیا تو اس موقع پر بھی چودھری نثار علی خان نے کہا کہ ’’ہاشمی صاحب ڈیڑھ سال پہلے آپ پارٹی جائن کرتے تو بہتر ہوتا‘‘ اس سے اندازہ لگا یا سکتا ہے چوہدری نثار علی خان مخدوم جاوید ہاشمی کی واپسی کے لئے کس قدر پرجوش تھے ۔ پچھلے پانچ سال کے دوران پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ گیا ہے۔ دونوں ہی فیض احمد فیض کی اس نظم کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں ؎ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38