دہشت گردی کے طفیل کئی ملک اور کئی گروہ موج کر رہے ہیں۔ خزانے بھر رہے ہیں۔ اپنی دکانیں اور خزانے چمکا رہے ہیں۔ اپنی حکومتیں اور پارٹیاں بچا رہے ہیں۔ جب سے دنیا بنی ہے۔ دہشت گردی کا وجود کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے البتہ اس کو باقاعدہ نام اور فروغ امریکہ اور اسرائیل نے دیا۔ مظلوم کا قتل عام روز اوّل سے ہے اور تا قیامت رہے گا۔ فرشتوں نے پروردگار سے عرض کیا تھا کہ یہ انسان دنیا میں فساد اور خون ریزی پھیلائے گا، لیکن اللہ سبحان تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور فرشتوں نے حکم کے سامنے سر جھکا دیا سوائے ابلیس کے۔ ابلیس نافرمانی سے پہلے تک فرشتہ تھا، رد کر دیا گیا تو شیطان کہلانے لگا۔ دہشت گردی کا آنا ابلیس کے انتقام کا نتیجہ ہے۔ پہلے اس کو ظلم اور فساد کہا جاتا تھا لیکن نیویارک میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے اسے ٹیررازم یعنی دہشت گردی کا نام دیدیا گیا۔ بس پھر کیا تھا جس نے بھی ٹیرر ازم کے خلاف علم بلند کیا وہ امریکہ کا منظور نظر ہو گیا۔ دہشت گردی کے طفیل بڑوں بڑوں کے گھر بھر ے جارہے ہیں۔ ویزے لگ رہے ہیں۔ میڈل مل رہے ہیں، اعزازت نوازے جا رہے ہیں، بزنس اور عہدے عطا ہو رہے ہیں، امیر بن رہے ہیں، امن کے سفیر بن رہے ہیں۔ حکمران بن رہے ہیں، امام اور کفیل بن رہے ہیں۔ دہشت گردی ایک ایسے دوزخ کا نام ہے جس کو ابلیس کے چیلوں نے سونے کی کان بنا کر پیش کر دیاہے۔ دہشت گردی کے سر پرست اس ظلم کو اس ہنرمندی سے کیش کرا رہے ہیں کہ دنیائے اسلام جہاں برباد ہورہی ہے وہاں دہشت گردی کے طفیل خود کفیل بھی ہو رہی ہے۔ ترکی جیسا پرامن ملک بھی دہشت گردی کی نذر کر دیا گیا۔ تمام مسلم ممالک دہشت گردی کے جہنم میں جھونک دئیے گئے اور دہشت گردی کے ردعمل کو وار ان ٹیرر کا نام دے کر مزید دہشت گردی بھڑکا دی گئی۔ دہشت گردی کے خلاف بولنے اور جلسے جلوس کرنے والے طفیلی کہلانے لگے اور یہ طفیلی دہشت گردی کا آلہ کار بن گئے۔ دہشت گردی کے طفیل ووٹ ملتے ہیں۔ دہشت گردی کے طفیل سپر پاورز کے پپٹ بنتے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تکہ بوٹی نئی بات نہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ بھری ہے۔ البتہ جدید دور کی تکہ بوٹی کا نام دہشت گردی ہے۔ سعودی عرب دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور عافیت امریکہ اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہے۔ بصورت دیگر بلیک میل کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے بینکوں میں سرمایہ محفوظ سمجھا جائے تو غلامی مجبوری بن جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان، مولانا اشرفی، حافظ سعید، جماعت اسلامی، سپہ صحابہ، مولانا طاہر القادری اور ایسی ان گنت جماعتیں اور مولانا صاحبان ماشاء اللہ دہشت گردی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی جاب خوب نبھا رہے ہیں کھا رہے ہیں، کما رہے ہیں، بنا رہے ہیں۔ اللہ سب مذہبی و دینی پیشوائوں کو ہدایت دے۔ دہشت گردی کے طفیل کئی خاندانوں اور جماعتوں کا کچن چلتا ہے۔ پاکستان کے حکمران خودداری کی زندگی گزارنے پر راضی ہو جاتے تو پاکستان آج دہشت گردی کا طفیلی نہ بنتا۔ پاکستان جیسی ایٹمی قوت کو بھی دہشت گردی کا طفیلیہ بننے پر مجبور کر دیا گیا۔ امت مسلمہ کا سرپرست سعودی عرب بھی دہشت گردی کا کفیل بنا دیا گیا۔ ترکی جیسی امن پسند قوم کو بھی دہشت گردی میں گھسیٹ دیا گیا۔ یورپی ممالک بھی اسی صورت میں سپر پاورز کے دوست ہیں اگر دہشت گردی کے خلاف مزید دہشت گردی کو پروان چڑھائیں۔ دہشت گردی ایک ایسی مکر و سازش ہے جس کی آڑ میں پوری دنیا کو ذہنی و معاشی غلام بنا دیا گیا ہے۔ آج کی اہم خبر یہی تھی کہ امام کعبہ پاکستان تشریف لائے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ عالمی طاقتیں امن کے لئے کردار ادا کریں۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ کس کو خوش کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے لئے وقف ہو چکی ہے اور مولانا حضرات جوشیلے بیانات کے بعد پیٹ بھر کر کھانا تناول فرماتے ہیں پھر قیلولہ فرماتے ہیں پھر شام کی چائے اور اس کے ساتھ سنیکس نوش فرماتے ہیں۔ پھر رات ٹی وی کے سیاسی شوز میں کوئی بلا لے تو خوبصورت گفتگو فرماتے ہیں اور نہ بلائے تو ایک دو بیان پریس میں بھجوا دیتے ہیں۔ شیخ رشید اور میرا کی طرح میڈیا پر چھائے رہنا بھی ایک کمال ہنر ہے۔ دہشت گردی کا نوالہ وردی والا اور دہشت گردی کا طفیلیہ… امریکہ کا منظور نظر…
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024