پتہ نہیں میرے قلم کا قارورہ افتخار احمد سندھو سے کیوں نہیں ملا، ان پر یکے بعد دیگرے تین کالم گھسیٹ چکا ہوں مگر ہر کالم پر کوئی نکتہ اعتراض بلند کر دیتے ہیں۔ آخری کالم پر ان کا اعتراض یہ ہے کہ میںنے ان کی ہاﺅسنگ سکیم کانام کیوںنہیں لکھا، میںنے بتایا کہ نام لکھ دیتا تو یہ ایک اشتھار بن جاتا اور میں سال بھر کی تنخواہ قسطوں میں کٹوانے پر مجبور ہو جاتا۔ ویسے کوئی چیز پردے میں بھی رہنی چاہئے تاکہ اس کی طلب کی خواہش دلوںمیں پیدا ہو ۔شیکسپیئر کامشہور مقولہ ہے کہ گلاب کو جس نام سے بھی پکارو ، یہ خوشبو دے گا مگر آج میں مجبور ہو گیا ہوں کہ بعض رہائشی سوسائٹیوں کا تذکرہ کروں ، اورا سکا سبب ایک ڈائری ہے جو میرے بھتیجے میاں عثمان نے اپنی کمپنی کے پریس سے چھپی ہوئی مجھے بھیجی ہے، ڈائری تو اپنی جگہ خوبصورت ہے ہی، مگر یہ ایک رہائشی سکیم سے متعلق ہے اور میں اس کا نام یہاں ضرور لکھوں گا خواہ مجھے اشتھار کا بل کیوںنہ پڑ جائے۔
بات یہ ہے کہ تقسیم ہند میں اصل نقصان مشرقی پنجاب کے چند اضلاع میں رہائش پذیر مسلمانوں کاہوا، جنہیں راتوں رات ہجرت کا عذاب سہنا پڑا، وہ لٹے پٹے پاکستان آئے اور مہینوں تک گنڈا سنگھ والا ا ورو الٹن کے مہاجر کیمپوں میںبے یارو مدد گار رہے۔پھر یہ مہاجر پورے پنجاب میں پھیل گئے، جس کے جہاں سینگ سمائے، وہیں کٹیا بنا کر بیٹھ گیا۔
ملک کی تقسیم آخر تقسیم ہوتی ہے اور ہجرت کاالمیہ اپنی جگہ پر درد ناک ہوتا ہے۔گھر بار، کھیت کھلیان، حویلیاں اور ڈیرے ، مال مویشی اور آباﺅ اجداد کے قبرستان ، سب کچھ آن کی آن میں چھن گیا، ان کو یاد رکھنے کے لئے یارلوگوںنے اپنے ناموں کے ساتھ سابقے لاحقے لگا لئے، کوئی امرتسری بن گیا ۔ کوئی انبالوی، کوئی گورداس پوری، کوئی لدھیانوی،کوئی جالندھری ، کوئی بارہ بنکوی اور کوئی فیروز پوری، دہلوی تو بے شمار تھے اور علیگ بھی ان گنت ۔
پھر ہم نے سنا کہ رائے ونڈ کے نواح میں جاتی امرا بن گیا ہے، یہ بستی، شریف خاندان کے آبائی وطن کی یاد میں بسائی گئی، اس پر اعتراض ہوئے کہ یہ اصحاب پاکستان آ کر بھی بھارت کو نہیں بھولے مگر جن لوگوں نے اپنے ناموں کے ساتھ بھارتی شہروں اور قصبوں کے نام کے دم چھلے لگا رکھے تھے، ان سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا۔
اب میں اپنے آج کے موضوع کی طرف آتا ہوں، کوئی صاحب لاہور کے نواح میں پورا فیروز پور شہر بسانے کی فکر میں ہیں، پہلے جاتی امرا بنا، اب فیروز پور بنے گا، پھر امرتسر، جالندھر، گورداسپور بھی بسا لئے جائیں تاکہ یہ جو ہمارے دل اپنے آبائی علاقوں میں اٹکے ہوئے ہیں، ان کو کچھ تو تسلی ہو۔ یہ کام ہجرت کے فوری بعد بھی ہو سکتا تھا، مختلف علاقوں کے مہاجرین کے لئے چند علاقے مخصوص کر دیئے جاتے ا ور یہاں مشرقی پنجاب میں چھوڑے ہوئے قصبوں اور شہروں کے نام سے نئی بستیاں بسالی جاتیں۔ دنیا میں یہ کام بہت شوق سے ہورہا ہے، انگریزوں نے جہاں بھی تسلط قائم کیا ، اپنے برطانوی شہر وہاں بسا لئے، یہ شہر آپ کو امریکہ، کینیڈا، افریقہ اورا ٓسٹریلیا تک میں مل جائیں گے، ویسے لاہور نام کا شہر امریکہ میں بھی موجود ہے، پتہ نہیں یہ کن صاحب کے دماغ کی اختراع ہے۔
ایک ہستی جنہوں نے ا پنا شہر چھوڑا ور پھرا س کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا، وہ نبی اکرم ﷺ ہیں۔ انہوں نے مکہ فتح ضرور کیا مگر واپس مدینہ لوٹ آئے، وہیں زندگی کے ایام پورے کئے اور وہیں آسودہ خاک ہیں، ان کا روضہ مبارک اور ان کے نام پر بننے والی مسجد مرجع خلائق و عام ہے، نفس گم کردہ می آئند جنید و بایزید ایں جا۔اسلام کو مٹی سے کوئی واسطہ نہیں، ہر ملک ماست، کہ ملک خدائے ماست۔ اقبال کا نعرہ بھی یہی ہے کہ سارا جہاں ہمارا۔میں نیویارک میں ایک نوجوان مجذوب نما شاعر کو ملا،ا س نے ایک نظم سنائی، جس میں سے مجھے یہ یاد رہ گیا ہے کہ ففتھ ایوینیو بھی میرا ہے ا ور بھنبھور کی گلیاں بھی میری ہیں، مگر نائن الیون نے سب کی سٹی گم کر دی ہے، امریکہ گرج کر کہتا ہے کہ طاقت کے زور پر آج کے دور میں سرحدیں نہیں بدلی جا سکتیں۔ یہ اصول دوسروں کے لئے ہے ،خود امریکی افواج دنیا بھر میں دندنا رہی ہیں، کسی سرحد کا ان کو لحاظ نہیں۔تاتاریوں کی طرح ملکوں ملکوں خون بہا رہی ہیں۔اور کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہیں۔
اس دور میں ہمار بس اسی پر چلتا ہے کہ وہ جو کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے، اسے بازیاب تو نہیں کر اسکتے، چلئے اس کا چربہ بنا لیتے ہیں، پہلے جاتی امرا بنا، ایک ریت پڑ گئی ، اب فیروز پور شہر بسے گا، پھر کسی کے جی میں آئے گا کہ یہیں کہیں امرتسر، جالندھر ، ہوشیار پورا ور گورداسپور بھی بس جائے۔ بلکہ رچ بس جائے۔
مگر یارو! ایک بات کا دھیان ضرور رکھنا کہ شہر تو بنائیں مگر فاصلے پر۔ میرے نبی ﷺ کا ہی فرمان ہے کہ دس لاکھ سے آ ٓبادی کسی شہر کی بڑھ جائے تو دور کہیں ایک نیا شہر بسا لو مگر ہمارا لاہور، اسلام آبادا ور کراچی تو ملکوں کی طرح پھیل رہے ہیں ، یقین جانئے کہ دنیا میں لاہور کے رقبے اور آبادی سے کم کے ملک موجود ہیں اور ہم سے کہیں بڑھ کر خوشحال اور ترقی یافتہ، سنگا پور اور ہانگ کانگ کو دیکھ لیجئے، دبئی پر نظر ڈال لیجئے۔قطر اور بحرین بھی ذہن میں رکھئے اور اپنے لاہور اور کراچی کی ابتری کی شرم بھی کھایئے۔
میںنے کچھ جگہوں کے نام لکھے ، ایک شعر میں دو شہروں کا ذکر آیا ہے، اگرچہ یہ میری طبیعت پہ تو گراں گزرتا ہے مگر شعیب بن عزیز کا شعر ہے،ا سلئے اس سے ا عراض تو نہیں برت سکتے، لکھتے ہیں:
میرے لاہور پر بھی ایک نظر کر
ترا مکہ رہے آباد مولا
امکان یہ ہے کہ جس روز داتا دربار کے زائرین سینکڑوں کے حساب سے دہشت گردی کانشانہ بنے تو شاعر نے اس واردات کو نظم کر دیا۔
ہمارے ہاں مکہ کالونی تو کہیں ضرور واقع ہے، مدینہ ٹاﺅن بھی جا بجا ہیں اس لئے میں افتخار سندھوکو یہی مشورہ دے سکتا ہوں کہ وہ اپنی سوسائٹی کا نام بدل کرمکہ سٹی یا مدینہ سٹی رکھ لیں اور اگر فتووںسے ڈرتے ہیں تو نئی دلی رکھ دیں، ڈھاکہ سٹی رکھ دیں تو پہلا پلاٹ میں بک کرانے کے لئے تیار ہوں۔
مگر لاہور تو لہور ہے ، یہ ہماری رگ رگ میں رچ بس گیا ہے، ایک راوین دوست حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ میں کئی برس قبل ملے تھے، کل رات انہوںنے لندن سے اپنا ایک قطعہ لاہور پر ارسال کیا ہے؛ملاحظہ فرمایئے:
لاہور جو لاہور تھا جانے وہ کیا ہوا
لاہور کے وہ رنگ پرانے نہیں رہے
لاہور لوٹ جائیں بھی تو جا کے کیا کریں
لاہورگی کے رنگ پرانے نہیں رہے
شاعر ہیںندیم صغیر ، ہاﺅنسلو ،لندن میںمقیم ہیں، مگر ان کی لاہورگی کی ترکیب بالکل سے نئی ہے۔ لاہور میں جاتی امرا بھی آ دھمکے ا ور فیروز پور بھی ہجرت کرکے آ جائے تو لاہورگی کا مزہ کیا رہ جائے گا۔لاہورگی کو آوارگی کے ہم وزن نہ سمجھیں۔
یہ سارا قصہ ایک ڈائری سے چلا ہے، پچھلے سال میاں عثمان نے اقبال پر ایک خوبصورت ڈائری لا کر دی تھی، میرے گھر چور بھی صاحب ذوق آتے ہیں ، یہ ڈائری لے اڑے مگر یو بی ایل کی غالب پر ڈائری میرے پاس اب بھی محفوظ ہے، مجھے گورنمنٹ کالج کے لائبریرین نے سال اول میں میرے نام کی مناسبت سے دی تھی، میاں عثمان سے کہوں گا کہ وہ اپنی کمپنی کے مالک سے مجھے ضرور ملائیں تاکہ اچھی اچھی ڈائریاں تو ملتی رہیں۔اچھی بستیاں تو بسانے سے رہا۔ مگر ایک نکتہ میرے ذہن میں آیا ہے اور چنددنوں میںا س پر عمل کر دکھاﺅں گا، اپنے گاﺅں فتوحی والا کے نام کی تختی اپنے لاہور کے گھر کے باہر نصب کر دوں گا۔اس کے بعد گاﺅں جانے کی حاجت نہیں رہے گی۔