ڈاکٹر بابر اعوان ایک دانشور سیاستدان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نواز شریف کے خاندان کے لیے ایک چراہ گاہ کی طرح ہے۔ ان کی سیاسی جولانگاہ بھی پاکستان ہے۔ ہمارے لیے تو یہ ملک ایک پناہ گاہ کی طرح ہے مگر اب تو یہاں ہمیں پناہ بھی نہیں ملتی۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ اور نواز شریف اسی دن لندن روانہ ہو گئے۔ اسی دن دانیال عزیز نے نواز شریف کو یہ کریڈٹ دیا کہ انہوں نے عدالت میں پیش ہو کر قانون کی پاسداری کی۔ کسی ملزم کے لیے عدالت میں پیشی قانونی طور پر فرض ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے مگر شاید ہم کوئی نئی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں۔
سیاسی خبروں کے درمیان ایک بات ایک غیرسیاسی خاتون فاطمہ قمر نے بہت ولولہ انگیز کہی ہے۔ اس بات میں کئی اشارے ہیں مگر ہم اب غور کرنے کی عادت چھوڑ بیٹھے ہیں۔ فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک بڑے زور شور چلا رہی ہیں۔ میں بھی ا نکی دو ایک تقریبات میں حاضر ہو چکا ہوں۔
آج کل اسمبلی کے حلف نامے میں ختم نبوت کے الفاظ تبدیل کرنے کی بات بہت ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ بے دھیانی میں تو ہو نہیں سکتا۔ کوئی بات تو اس کے اندر ہے۔ کوئی سازش کوئی پلاننگ؟ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان ایک سیاسی بحران میں گھرا ہوا ہے۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں آئین میں یہ ترمیم لائی گئی تھی۔ یہ معاملہ بڑی خوش اسلوبی سے حل ہو گیا تھا۔ اس میں بھٹو صاحب کی سیاسی بصیرت بھی شامل ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ اس معاملے کو ہوا نہیں دینا چاہیے۔ نہ اسے کسی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
ایک غیرسیاسی خاتون فاطمہ قمر نے ایک بہت اچھی بات کی ہے۔ جو سیاستدانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔ ’’اگر ترمیمی بل قومی زبان اردو میں پیش کیا جاتا تو سب ممبران کو پتہ چل جاتا کہ اس کے اندر کیا ہے۔‘‘ اراکین اسمبلی کی بہت بڑی تعداد انگریزی نہیں جانتی۔ ان امیر زادوں کو پڑھنے لکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ خدا کے لیے انگریزی کو اپنی قومی زبان نہ بنائو۔ سکولوں کالجوں میں اسے ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے نہ پڑھایا جائے۔ ہمارے ساٹھ فیصد طالب علم انگریزی میں فیل ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ مضمون فیل ہونے کے لیے رکھا گیا ہے۔
جو انگریزی پڑھنا چاہتے ہیں بے شک پڑھیں۔ اسے ایک اختیاری مضمون کی حیثیت دی جائے۔ ہم تو خواہش ہی کر سکتے ہیں۔ گزارش ہی کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس بے اختیار ہی رہنے دو۔ بے اختیاری میں جتنا مزا ہے۔ اتنا اختیار میں نہیں ہے۔ ع
مینوں لگ گئی بے اختیاری
میرے ادیب شاعر بہت سادہ خوددار اور غریب دوست حسن شاد کی بیٹی شگفتہ شاد نے ملتان سے فون کیا کہ یہ جو ایف اے کے رزلٹ کے بعد انٹری ٹیسٹ کی مصیبت طالب علموں کے سروں پر ڈال دی گئی ہے۔ آخر کتنے امتحانات بچوں کو پاس کرنا ہونگے۔ یہ ٹیسٹ انٹربورڈ کے معاملات میں بے ضابطگیوں کرپشن اور بے انصافی کے بعد شروع کیا گیا ہے۔ بہت نالائق بچے میڈیکل کالجوں میں داخل ہو جاتے تھے جن کے ہاتھ میں لوگوں کی زندگیاں ہوتی ہیں وہ اپنے میدان میں نااہل ہوتے ہیں۔
مگر اب اس انٹری ٹیسٹ کے لئے بھی اس طرح کی شکایات آنا شروع ہو گئی ہیں۔ اب ارباب اختیار کسی اور امتحان کی آزمائش میں بچوں کو نہ ڈال دیں۔ اس سارے چکر میں غریب کی بچی کھچی ساری آمدنی خرچ ہو جاتی ہے۔ اس ٹیسٹ کے لئے مخصوص تعلیمی اکیڈمیاں بنائی گئی ہیں۔ وہ ہزاروں روپے فیس لیتی ہیں۔ ان کے اوپر والوں کے ساتھ بھی رابطے ہوتے ہیں۔
چند دن پہلے ملتان کے ہوائی اڈے سے اس شخص کوگرفتار کر لیا گیا ہے جس نے انٹری ٹیسٹ کا پرچہ آئوٹ کیا تھا۔ بالعموم اس انٹری ٹیسٹ کے لئے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آئوٹ آف دی کورس ہوتا ہے جسے ٹیچرز بھی حل نہیں کر سکتے تو سٹوڈنٹس کیسے کریں گے۔
سنا ہے کہ ایک جج صاحب نے انٹری ٹیسٹ کے لئے ایک مشہور ٹیچر کو بلایا اور اسے انٹری ٹیسٹ کے سوالات حل کرنے کی ہدایت کی۔ وہ مقررہ وقت میں ایک بھی سوال کا جواب نہ لکھ سکا تو جج صاحب نے کہا کہ تم ٹیچر ہو۔ تم اگر یہ سوالات حل نہیں کر سکتے تو بچے کیسے کریں گے۔ یہ ایک باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے۔ خدا کے لئے اس گندے دھندے سے سٹوڈنٹس کی جان چھڑائی جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024