میری اس بات پر شائد آپ سوچیں گے کہ عمران خاں کی طرح مجھے بھی زرداری دور اچھا لگنے لگا ہے مگر حلقہ این اے 122کی انتخابی مہم میں حکمران مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے مابین نظریات اور اصولوں کے بجائے دھن دولت اور دھونس کی مقابلہ بازی کو دیکھ کر مجھے اس حلقہ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار مظلوم نظر آ رہے ہیں اور اگر اس حلقہ کے اجتماعی شعور کی نمائندگی کا مجھے حق حاصل ہو تو میں پیپلز پارٹی کے نظریات اور اصولوں سے شروع دن سے سوچ کا اختلاف رکھنے کے باوجود آج حلقہ این اے 122میں پیپلز پارٹی کے مظلوم امیدواروں کو اس حلقہ کے اجتماعی شعور سے سرفراز کر دوں۔ اس کے لئے مجھے ضمیر کی خلش اس لئے نہیں ستائے گی کہ دھن دولت کی مقابلہ بازی میں افتخار شاہد جیسے بے وسیلہ امیدوار کا سرخرو ہونا ہی عوام الناس کے اجتماعی شعور کی ترجمانی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی اس حلقے کی خالی صوبائی نشست پر افتخار شاہد کو قربانی کا بکرا سمجھ کر ہی اپنا امیدوار نامزد کیا ہے ورنہ پیپلز پارٹی کو اس حلقہ میں اپنی کامیابی کا تھوڑا سا بھی یقین ہوتا تو افتخار شاہد پہلے ہی کی طرح قیادت کے ہاتھوں دھتکارے ہوئے جیالے کارکنوں کی صف میں ہی شامل نظر آتا اور دھن دولت کی ریس میں پیپلز پارٹی کا امیدوار بھی کسی ”عالیجاہ“ طبقے سے ہی لایا جاتا۔ مجھے تو صوبائی نشست پی پی 147میں افتخار شاہد کے کھڑے ہونے کا علم بھی کل ایک کونے میں لگے پیپلز پارٹی کے ایم این اے کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن کے ایک پوسٹر پر افتخار شاہد کی تصویر دیکھ کر ہوا ہے۔ اس پر بھی مجھے گمان گزرا تھا کہ شائد افتخار شاہد پیپلز پارٹی کے امیدوار کو سپورٹ کر رہا ہو گا اور بیرسٹر عامر نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پوسٹر پر ان کی تصویر بھی لگا دی ہو گی مگر قریب جا کر اس پوسٹر کو دیکھا تو اس میں افتخار شاہد کا نام بطور امیدوار دیکھ کر میں خوشگوار حیرت میں ڈوب گیا۔ پھر مجھے تجسس ہوا کہ اس حلقہ کی دوسری صوبائی نشست پر پیپلز پارٹی کی نظر کرم کس پر پڑی ہے۔ پوسٹر پر تو مجھے کوئی دوسرا نام نظر نہ آیا چنانچہ آفس آ کر میں نے چیف رپورٹر فرخ سعید خواجہ صاحب سے استفسار کیا تو ان کے اس جواب پر مجھے مزید حیرت ہوئی کہ الیکشن ٹربیونل نے حلقہ این اے 122کا سارا انتخاب کالعدم قرار دینے کے باوجود اس کے حلقہ پی پی 148میں پی ٹی آئی کی جیتی گئی نشست محفوظ رکھی ہے اور صرف دوسری نشست پی پی 147کا انتخاب کالعدم قرار دیا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئی تھی۔ الیکشن ٹربیونل کی اس بصیرت کو سمجھنے اور پھر بیان کرنے کے لئے ایک الگ کالم کی ضرورت ہے جبکہ میں اس وقت اپنے سجن افتخار شاہد کے امیدوار بننے سے حاصل ہونے والی خوشی میں کسی اور عنصر کو مخل نہیں ہونے دینا چاہتا اور اپنی خوشگوار حیرت میں ہی ڈوبا رہنا چاہتا ہوں۔
ویسے تو مجھے ایسا بھی کوئی گمان نہیں کہ پیپلز پارٹی کو حلقہ این اے 122میں کامیاب ہونے کا تھوڑا بہت یقین ہوتا تو بھی بیرسٹر عامر حسن ہی کو اس حلقہ میں پارٹی ٹکٹ ملتا۔ کیونکہ انتخابی اقتداری طبقے کے لچھن ہی کچھ اور ہوتے ہیں جن سے بیرسٹر عامر حسن کا بھی دور دور کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ اس نوجوان بیرسٹر نے وکالت کے ساتھ ساتھ قلم تھام کر پیپلز پارٹی کے ہر اچھے برے دن کے موقع پر کالم کے ذریعے اس پارٹی کی وکالت کی ازخود ذمہ داری نبھانا شروع کی تو میری بھی ان سے میل ملاقات شروع ہوئی اور میرا یہ گمان پختہ ہے کہ حلقہ این اے 122میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے دھن دولت کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کو بیرسٹر عامر حسن بھی قربانی کے بکرے کے طور پر ہی دستیاب ہوئے ہیں ورنہ وہ قلم تھامے اس پارٹی کی بس ترجمانی کرتے ہی رہ جاتے اور افتخار شاہد سے تو میرا تعلق دیرینہ ہے۔ ایم آرڈی کی تحریک میں یہ نوجوان وکیل پیپلز پارٹی کے جیالے کی حیثیت سے پولیس کی لاٹھیاں، ٹھڈے، آنسو گیس کھاتا نظر آتا اور جیل سے لیکر قلعہ بندی کی قید تک کی صعوبتیں بحالی جمہوریت کے لئے افتخار شاہد کی جدوجہد کی گواہی دیتی رہیں۔ ہائیکورٹ بار کے برگد کے درخت کے نیچے چودھری لیاقت وڑائچ، ملک قاسم مرحوم، سردار شوکت علی، عبدالرشید قریشی، ملک حامد سرفراز، سید منظور گیلانی اور سیاسی اسیران رہائی کمیٹی کے دوسرے سرگرم ارکان کے ساتھ ہونے والی نشستوں میں افتخار شاہد بھی شامل ہوتے۔ افتخار شاہد اور شاہد محمود ندیم نوجوان وکلاءمیں پیپلز پارٹی کے وہ جیالے کارکن تھے جن کے ساتھ ہائیکورٹ سے آفس جاتے ہوئے مال روڈ پر پیدل ہمسفری والا تعلق بھی استوار ہوا۔ اس ہمسفری میں اکثر کامریڈ لئیق عسکری بھی شریک ہو جاتے۔ پھر یکے بعد دیگرے پیپلز پارٹی کے اقتدار کے تین دور آئے۔ وکلاءمیں سے بھی عبدالرشید قریشی تک کئی مہربان سرکاری منصب پا گئے۔ کوئی اسسٹنٹ یا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور کوئی سٹینڈنگ کونسل یا ڈپٹی اٹارنی جنرل بنا، کسی کو ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ تک جج کے منصب کی سرفرازی مل گئی۔ کسی کے حصے میں لیگل ایڈوائزری آئی اور کچھ حکومتی صفوں میں بھی
اعلیٰ مناصب پر سرفراز پائے گئے مگر ہمارے یار افتخار شاہد کی پیدل ہمسفری ہی چلتی رہی۔ انہوں نے غالباً اتنی ترقی ضرور کر لی کہ مال روڈ پر راجہ عبدالرحمان کی طرح اپنی وکالت کا آفس بنا لیا مگر اس آفس میں دل جما کر بیٹھنے کی عادت شائد افتخار شاہد میں ابھی تک پختہ نہیں ہو پائی۔ ان سے کبھی سرراہے ملاقات ہوئی تو سڑک پر ہی ہوئی۔ آج ہمارا دوست افتخار اتنا اہل ہو گیا ہے کہ اسے پیپلز پارٹی کی قیادت نے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ تک سے سرفراز کر دیا ہے تو اس میں مصلحت، مجبوری یا حکمت، جو بھی ہے کم از کم یہ اصل عوام، راندہ¿ درگاہ عوام کے طبقے میں سے تو نامزد ہوا ہے۔ تو بھائی آج دھن دولت کے مقابلے میں مجھے اپنے اس سجن کی وکالت کرتے ہوئے اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ پڑتا محسوس نہیں ہو گا۔ مگر المیہ تو دیکھئے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان دونوں امیدواروں کو پیسے کی ریس والے میدان میں اتار کر انہیں تھپکی دئیے رکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور انہیں ”چڑھ جا بیٹا سولی پہ، رام بھلی کرے گا“ کی مثال بنا دیا۔ ابھی مجھے کہیں سے بھنک پڑی ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے کسی ”حکمت“ کے تحت ضمنی انتخابات اور آنے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو اپنے پوسٹروں، بینروں پر آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کی تصویر لگانے سے بھی روک دیا ہے۔ شائد حکمت یہ ہے کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ناکامی کا یقین ہے تو اس ناکامی کو صرف امیدواروں کی ذاتی ناکامی تک ہی محدود رہنے دیا جائے اور پارٹی قیادت کے اجلے دامن پر اس ناکامی کا کوئی چھینٹا نہ پڑنے دیا جائے۔ شائد اسی حکمت کے تحت پارٹی قیادت نے حلقہ این اے 122کے ضمنی انتخاب میں اپنے امیدواروں کے لئے جلسوں سے پرہیز کی راہ اختیار کی اور گزشتہ روز بمشکل تمام پیپلز پارٹی کے جس جلسے کا انعقاد ہو پایا وہاں لگائے گئے امیدواروں کے بینروں پر بھی پارٹی قیادت کی تصویریں نہ لگانے کی ”حکمت“ ہی کارفرما نظر آئی۔ اس لحاظ سے تو بیرسٹر عامر حسن اور افتخار شاہد پیپلز پارٹی کی جانب سے نامزد ہونے کے باوجود اس پارٹی کے امیدوار نظر نہیں آتے تو پھر راندہ¿ درگاہ عوام کے اجتماعی ضمیر کی ترجمانی کے لئے ان کا ساتھ دینا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ کل اس حلقہ میں کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور دھن دولت کے ساتھ ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے والوں میں سے کون اپنے زیادہ دھن کے ڈھنڈورے پیٹتا ہے، مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ یہ مفاداتی سیاست کا گندا کھیل ہے مگر بیرسٹر عامرحسن اور افتخار شاہد کے لئے بیلٹ بکسوں میں سے جتنے بھی ووٹ برآمد ہوں گے وہ محروم عوام الناس کے اجتماعی شعور کے ہی ترجمان ہوں گے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔