نئی قومی اسمبلی کے نئے سپیکر نفیس الطبع اور شائستہ اطوار ہیں۔ اس کا اندازہ ہمیں یوں ہوا کہ گزشتہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران کبھی کبھی وہ حروف تہجی کی زد میں آکر ہمارے ہم نشین بن جاتے تھے مثلاً ان کا نام الف سے شروع ہوتا تھا اور ہمارا ب سے.... جب کبھی مشترکہ اجلاس ہوتا ہے تو دونوں ایوانوں کے نمائندگان کو حروف تہجی کی ترتیب سے بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ تقدیم و تاخیر اور سینئر جونیئر کا فرق مٹا دیا جائے وہ ہمارے ساتھ آ بیٹھتے تھے۔ ایاز صادق کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا۔ یوں تو مسلم لیگ ن کے سبھی ارکان ہر پارٹی سے سلام دعا لیتے تھے مگر کچھ ارکان جو حالیہ وزارتوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا دم بھرنے کےلئے ق لیگ کے ارکان سے سلام دعا تو درکنار، ان کے قریب سے گزرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس تعصب نے اگرچہ پولیٹکل پارٹیوں کو نقصان پہنچایا ہے یوں دیکھا جائے تو آج مسلم ق کے سارے لاڈلے خواتین و حضرات مسلم ن میں جا بیٹھے ہیں مشرف کے طرفدار وزارتوں کے حقدار بن گئے ہیں کل منظر نامہ کیسا ہو گا۔ کون جانتا ہے.... نہ دوستیاں دائمی نہ دشمنیاں مستقل پھر بھی پارٹی کے اندر کچھ ارکان کوتاہ بین اور کوتاہ اندیش ہوتے ہیں۔ جن سے ہمیں ہاﺅس کے اندر روز پالا پڑتا تھا لیکن بات ہم کر رہے تھے۔ جناب ایاز صادق کی.... ایاز صادق اس قسم کے پارٹی تعصب سے بالا ہو کر ہمیشہ سلام میں پہل کرتے تھے۔ حال پوچھتے تھے بات چیت کر لیتے تھے اور ان کا انداز گفتگو بڑا شائستہ اور مہذب ہوتا تھا جو انسان اپنے عالی اخلاق سے شناخت کئے جاتے ہیں وہ دھیمے لہجے سے اپنے وقار کو بلند رکھتے ہیں۔ اس لئے جب جناب ایاز صادق نیشنل اسمبلی کے نئے سپیکر منتخب ہوئے تو ہمیں خوشی ہوئی اور ہم دعا گو ہیں کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ایک یادگار کردار ادا کر سکیں۔ آتے ہی انہوں نے دو تین باتیں کہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ سب کو ساتھ لے کر چلوں گا۔
دوسرا یہ کہ .... قومی اسمبلی کے اخراجات میں کمی لائی جائے گی۔
تیسرا یہ کہ ....قائمہ کمیٹیوں کی تعداد25 رکھی جائے گی۔ کمیٹی سسٹم کو مضبوط اور موثر بنایا جائے گا۔
چوتھا یہ کہ ....اگر قومی اسمبلی میں ڈرون حملوں کے خلاف کوئی قرارداد آئی تو اس پر ارکان کو بولنے کا بھرپور موقع دیا جائے گا۔علیٰ ھذا القیاس....
قومی اسمبلی کا سپیکر چونکہ سارے ہاﺅس کا کسٹوڈین ہوتا ہے۔ اس لئے اسے سب کو ساتھ لے کر ہی چلنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اس کا تعلق ہمیشہ حکمران پارٹی سے ہوتا ہے۔ مگر یہ اس کی ذہانت، سوچ، تجربے اور ہنرمندی پر منحصر ہوتا ہے کہ پارٹی جھکاﺅ کے باوجود پلڑے کو جھوک نہ آنے دے۔ بجٹ سیشن میں اور قانونی سازی کے دنوں میں اس کی غیر جانبداری کا امتحان ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارا دس سالہ تجربہ کہتا ہے کہ نرم گوشہ اس کے دل میں اپنی پارٹی کےلئے رہتا ہے۔ یہ ایک قدرتی سی بات ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ قومی اسمبلی کے اخراجات میں کمی لائی جائے گی۔
دیکھنا یہ ہے کہ یہ کمی کس طرح لائی جائے گی....؟
سابقہ سپیکروں نے بھی ایسے ہی دعوے کئے تھے....؟ مگر لاحاصل....؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے قومی اسمبلی کے ارکان اور سپیکرز کو دعوت نامے آتے ہیں۔ بیرون ملک وفود کا بھیجنا اور خود جانا سیاست اور جمہوریت کا حصہ ہے۔ اگر پاکستان نے دنیا سے یہ منوانا ہے کہ وہ ایک جمہوری ملک ہے تو اسے باہر کے ملکوں میں وفود بھیجنے پڑیں گے۔ اور وفود بلانے بھی پڑیں گے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ”ہز ایکسی لینسی“ کہلوانے کے جنون میں سپیکر زیادہ تر دوروں پر ہی رہے اور پورا ہاﺅس ڈپٹی سپیکر کی کمان پر چھوڑدے پھر ڈپٹی سپیکر کو بھی تو وفد میں جانے کا شوق ہوتا ہے۔
پچھلے ادوار میں جو ہم نے دیکھا کہ کچھ ارکان جوفن خوشامد اور سلیقہ چاپلوسی میں ماہر تھے۔ انہیں بار بار وفود میں بھیجا گیا۔ یہ دیکھے بغیر کے باہر جاکر بات کرنے کی ان میں اہلیت ہے کہ نہیں ہے۔ یا وہ محض شاپنگ کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ یہی حال یو این میں بھیجے جانے والے وفود کا ہوتا ہے۔ جس کی آنکھوں دیکھی تفصیل ہم کسی دوسرے کالم میں لکھیں گے۔ وفود بھیجنے کا ایک مقصد ہوتا ہے تو اس مقصد کے حصول کی کوئی فائل بھی وصول ہونی چاہئے.... پھر سب لوگ بزنس کلاس میں سفر کرتے ہیں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں۔ ڈیلی الاﺅنس لیتے ہیں یہ اخراجات کم کئے جا سکتے ہیں۔ اگر پہلے سے طے کر لیا جائے کہ ایک سال میں کتنے وفد جائیں گے اور تعداد کم سے کم رکھیں اور خود سپیکر صاحب بھی اس آئینی ذمہ داری کو اپنے سابقین کی طرح شوق سیاحت نہ بنائیں۔
قائمہ کمیٹیوں کی تعداد کم کرنا اچھا اقدام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے عوام بہت کم جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے اندر اپنی پارٹی کے ارکان کو خوش کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ مثلاً وفاقی وزیر بنا دینا۔ وزیر مملکت بنا دینا۔ پارلیمانی سیکرٹری بنا دینا۔ یا پھر اسے کسی سٹینڈنگ کمیٹی کا چیئرمین بنا دینا۔ گاڑی سٹاف ، دفتر، فون، پٹرول۔ یہ ساری سہولتیں اس میں شامل ہوتی ہیں۔ اسی لئے سابقہ حکومتوں میں جب بعض ناراض ارکان کو وزارتیں نہ دی جا سکیں تو سٹینڈنگ کمیٹیوں کے حصے بخرے کر کے ارکان کو خوش کرنے کی ترکیب عمل میں لائی گئی۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ بادشاہی فیصلے کرتی ہے۔ بہت ساری سٹینڈنگ کمیٹیوں کی کارکردگی کبھی سامنے نہیں آئی حالانکہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں اور خاص کر یو این کی اسمبلی میں زیادہ کام سٹینڈنگ کمیٹیاں کرتی ہیں۔ وہی قانون سازی کر کے ہاﺅس میں بھیجتی ہیں۔ ان کے تعاون کے بغیر اسمبلی چل نہیں سکتی۔
اگر سٹینڈنگ کمیٹیوں کی تعداد میں خواہ مخواہ اضافہ کر دیا جائے گا تو اخراجات بڑھیں گے اور کمیٹیوں کے چیئرمین بھی اہلیت اور قابلیت کے مطابق لگا دیئے جائیں۔
ایک بات اور سابقہ حکومتوں کے دوران مشاہدے میں آئی کہ بعض سینئر وزرا نے گاڑیوں کی فلیٹ رکھی ہوئی تھی۔ چلئے وزیراعظم کا لاﺅ لشکر تو سمجھ میں آتا ہے۔ باقی وزرا دس دس بارہ بارہ گاڑیاں جلو میں لیکر کیوں نکلتے تھے اور ہر گاڑی کےلئے انہیں پٹرول کا کارڈ ملتا تھا۔ موٹر وے پر ایسے شاہانہ قافلے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے....
رہا سکندر یہاں نہ دارا نہ ہے فریدوں یہاں نہ جم ہے
کوئی تو آئے کہ جو سابقون کی روایات کو بدل کر رکھ دے.... تھوڑے دن سب سادگی.... سادگی کا شور مچاتے ہیں۔ پھر کان نمک میں نمک ہو جاتے ہیں۔
باقی رہی بات ڈرون حملوں کی....
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی طرف سے یہ قرارداد آنی چاہئے اور سپیکر صاحب جناب ایاز صادق کو وعدے کے مطابق اس پر سیر حاصل بحث کروانی چاہئے۔
اب حد سے بڑھی جاتی ہے حالات کی تلخی
اس زہر میں کچھ شہد ملا کیوں نہیں دیتے
ماحول کی چادر پر بڑی گرد جمی ہے
سوئے ہوئے انساں کو جگا کیوں نہیں دیتے!
ہماری دعا ہے اللہ سپیکر صاحب جناب ایاز صادق کو اپنے ارادوں اور وعدوں میں سرخرو کرے اور جمہوریت کے آئندہ پانچ سال ملک کا چہرہ سنوار دیں۔ آمین۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024