ایک طرف کہا جاتا ہے کہ اخباری تراشوں کی کوئی ویلیو نہیں ہے اور پھر اخباری تراشوں پر ہی سو موٹو ایکشن لیا جاتا ہے ۔ فرشتوں جیسی طیبہ ایک دن میں میڈیا کی معرفت سے ہی ہمارے گھر کی رکن بن گئی ہے۔ میرا تین سال کا پوتا چار سال کا نواسہ بھی اب طیبہ سے شناسا ہو گیا ہے۔ میں انشااللہ طیبہ سے ملنے کے لیے جائوں گا۔ اس نے ساری قوم کو جگا دیا ہے۔ اور اپنے درد میں شریک کر لیا ہے۔
اس کے ساتھ ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ بھی بہت مشہور ہو گئی ہیں۔ مجھے ایڈیشنل سیشن جج کا نام معلوم نہیں ۔ اور اس طرح ایڈیشنل سیشن جج اپنی ساری برادری سمیت لوگوں کی نگاہ میں آ گئے ہیں یہ ایڈیشنل سیشن جج کے منصب کی توہین ہے۔ وہ تو انسان کی زندگی اور موت کے فیصلے کرتا ہے۔ پھر یہ ان سے کیسا فیصلہ ہو گیا۔ گھروں سے چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں اکثر آتی ہیں۔
گھروں میں جب ان کے ملازموں پر ظلم کرنے والوں کے بچے اپنے ملازم بچوں کے ساتھ یہ بدسلوکی اور تذلیل دیکھتے ہوں گے تو ان کے ذہنوں میں ایک صورتحال بنتی ہو گی کہ یہ غریب بچے انسان ہی نہیں ہیں۔ نہ ان کی کوئی عزت ہے۔ نہ ان کی کوئی حیثیت ہے۔ یہ صرف بے عزتی کی زندگی جیتے ہیں۔ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ڈانٹ اور مارکٹائی ان کا مقدر ہے جس کے لیے کوئی بازپرس نہیں ہے۔ اور ہم ان سے بہت برتر ہیں؟ بچپن میں غریبی اور امیری کا یہ ظالمانہ فرق ایک گناہ کبیرہ ہے۔ بچہ غریب اور امیر نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں ہوتا ہے۔
حیرت ہے کہ آج تک ایسی کسی ظالم عورت کو سزا نہیں ملی۔ انہیں ان مظلوم بچوں کے سامنے بے عزت کیا جانے کہ وہ خود اپنے بچوں اور ان مظلوم بچوں کے سامنے ذلیل و خوار ہو جائیں تو پھر ہم دیکھیں گے کہ کون ’’طاقتور‘‘ عورت کسی کمزور اور بے آبرو بچے کو گالیاں دیتی ہے اور مارتی پیٹتی ہے۔
اس واقعے میں بھی سو طرح سے باتیں نکالی جائیں گی۔ وکلاء بھائی زمین و آسمان کے قلابے ملائیں گے۔ شور و غل مچے گا اور بات ختم ہو جائے گی۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کی خبریں سامنے آ چکی ہیں مگر کچھ نہیں ہوا۔ اب بھی کچھ نہیں ہو گا؟ ایک بار تو کوئی فیصلہ ہونا چاہیے۔ مگر یقیناً لوگ بھول بھال جائیں گے۔ میڈیا کے بارے میں سو طرح کی باتیں ہوتی ہیں مگر میڈیا یہ خبر سامنے لایا ہے اور ایک شور مچ گیا ہے۔ قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ہماری قیامتوں کی عمریں اتنی تھوڑی کیوں ہوتی ہیں اور پھر منیر نیازی نے تو کمال کر دیا ہے۔ قیامتیں جو گزرتی ہیں وہ قوموں کا کردار اور کلچر بھی بتا دیتی ہیں۔ کبھی طیبہ بھی سب کچھ بتانے کے قابل ہو گی؟
یہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی
کیا ہم جلاد ہیں۔ مظلوم کی آہ بھی ہمارے ہاں کارگر نہیں ہے۔ مولا علیؓ نے فرمایا اس مظلوم سے ڈرو جس کا اللہ کے سوا کوئی نہ ہو۔ مجھے اس بار کچھ کچھ امید ہے کہ کوئی بڑا نتیجہ نکلے گا۔ بہادر عاصمہ جہانگیر اور علی ظفر بڑے مرتبے کے وکیل ہیں۔ انہوں نے احتجاج کیا ہے۔ ان سے گذارش ہے کہ طیبہ کے وکیل بن جائیں۔
لیبر پروٹیکشن کو کٹہرے میں لایا جائے کہ کیوں سینکڑوں گھروں میں معمولی اجرت پر بیگار میں بچوں کو غلام بنائے رکھا جاتا ہے۔ ہماری پولیس نے پہلے کیس خراب کرنے کی کوشش کی۔ ڈری سہمی بچی سے کہلوایا میں سیڑھیوں سے گری ہوں پھر حوصلہ ملنے پر سب کچا چٹھا بتا دیا۔
یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں جج قانون کا محافظ قانون توڑتا ہے۔ یہاں غریبی بدنصیبی بن گئی ہے اور امیری بے ضمیری ہو گئی ہے۔ ورنہ غریب اور امیر تو معاشرے میں ہوتے ہیں۔ ظلم اور بے انصافی کے شکار اس زندگی کو زندگی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ شرمندگی ہے ورنہ یہ درندگی ہے اس بے رحمانہ تشدد کے دوران منصف کی اہلیہ سوچ رہی ہو گی کہ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا؟
میرا درویش ابا ہر نماز کے بعد دعا کیا کرتا تھا اے خدا مجھے غریبی سے بچا۔ اے خدا مجھے امیری سے بچا۔ رسول کریمؐ بچوں سے پیار کرتے تھے۔ کون ہے جو بچوں سے پیار نہیں کرتا۔ ماں سانجھی ہوتی ہے تو بچے بھی سانجھے ہوتے ہیں مگر ہم نے اپنی زمین کو دوزخ بنا دیا ہے۔ اس دوزخ بنتی ہوئی زمین پر بچے جنت کے باشندے ہیں۔
مجھے پسند ہیں بچے پرندے اور پھول۔ بچے تین وجہ سے پسند ہیں۔ ان کا بینک بیلنس نہیں ہوتا۔ ان کا ووٹ نہیں ہوتا۔ اور وہ ایک دوسرے سے ناراض ہو جائیں تو پھر فوراً راضی ہو جاتے ہیں اور اکٹھے کھیلنے لگتے ہیں۔ شفیق الرحمن نے کہا بچے بہت اچھے ہوتے ہیں مگر ان میں ایک خرابی ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024