روہنگیا مسلمانوں پر سدا ظلم ہوتا ہے مگر ہم پاکستانی بڑے بے خبر واقع ہوئے ہیں، ہم تک ایسی خبر جلدی نہیں پہنچتی اور جب پہنچتی ہے تو چند روز کے لئے ہم رو دھو کے چپ ہو جاتے ہیں، پھر ہم لمبی تان کر سو جاتے ہیں اور دوبارہ بری خبریں ملتی ہیں تو ہڑبڑا کر بیدار ہو جاتے ہیں۔
روہنگیا مسلمان برما میں اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں، وہ اپنے آپ کو ملک کے اصل اور قدیمی باشندے سمجھتے ہیں مگر برما نے ان پر اپنی سرزمین تنگ کر رکھی ہے۔برما کہتا ہے کہ یہ لوگ بنگلہ دیشی ہیں،واپس اپنے گھروں کو چلے جائیں مگر بنگلہ دیش بھی ان کو واپس لینے کے لئے تیار نہیں، سو نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ شناخت سے ہی محروم ہیں اور اپنے لئے نئے ٹھکانے تلاش کرنے کے لئے سرگرداں ہیں، کوئی تھائی لینڈ کا رخ کرتا ہے تو کوئی ملائیشیا کا اور کچھ انڈو نیشیا پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مگران ممالک کی حکومتیں بھی ان کے تعاقب میں رہتی ہیں، سو وہ نہ گھر کے ہیں، نہ گھاٹ کے۔
قدرت بھی انکے لئے شاید رحمدل دکھائی نہیں دیتی، یہ لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک کو فرار ہونے کے لئے چھوٹی کشتیاں اور خطرناک بحری راستے استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور اس علاقے میں سمندر کی طغیانی کئی کشتیوں کو لے ڈوبتی ہے، بپھری لہروں پر ان کی لاشیں تیرتی دکھائی دیتی ہیں۔اور جو کسی ساحل مراد تک پہنچ بھی جائیں، وہ کیمپوں میں محصور، جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ۔
پاکستان میں ان دنوں روہنگیا کیے لئے تڑپ زندہ ہو گئی ہے، جلوس نکل رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے دفتر میں یادداشتیں پہنچائی جا رہی ہیں۔یہ بھی ایک غنیمت امر ہے ، باکل بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا تو ہمیں سنگدل کہا جاتا اور ہم سے پوچھاجاتا کہ آپ تو اسلام کا قلعہ ہونے کے دعویدار تھے، چند لاکھ روہنگیا محکوموں اور مجبوروں کے لئے آواز تک بلند نہ کر سکے،سوہم نے عالم اسلام کا قلعہ ہونے کا ثبوت دینے کے لئے کچھ سرگرمی دکھائی ہے۔ اور ایسی سرگرمی صرف پاکستان میں ہی ہو سکتی ہے، ہمارے دلوں میں دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا درد ہے، کبھی ہم فلسطینی مسلمانوں کے جائز حقوق کے لئے نعرے لگاتے تھے، کبھی کشمیری مسلمانوں کا درد ہمارے دلوں میں جاگ اٹھتا ہے، کبھی ہمیں سنکیانگ کے چینی مسلمانوں کی دکھی زندگی تنگ کرتی ہے جہاں نماز روزے تک کی پابندی ہے، ہماری چین سے بہت قریبی دوستی ہے مگر ہم نے کبھی اس سے یہ پوچھا تک نہیں کہ نماز روزے سے کونسی دہشت گردی پھیلتی ہے۔ بس چین نے بھی امریکہ اور یورپ کی دیکھا دیکھی ہر ڈاڑھی والے کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے۔
ہم کہنے کو کہتے ہیں کہ ہم نے سووئت روس کو توڑا اوراس کی محکومی سے کئی مسلمان ممالک کو آزادی دلوائی لیکن ہم نے کبھی ان ملکوں میں جا کر یہ نہیں دیکھا کہ ان کی حکومتیں ان پر کیا کیا جبر نہیں کرتیں۔یہ وسط ایشیائی ممالک ایک زمانے میں اسلامی علم ، تہذیب و ثقافت کا مرکز تھے، احادیث کی معتبر تریں کتاب امام بخاری نے مرتب کی، اس علاقے کے مدرسوں نے دنیا میں علم و ہنر کی روشنی پھیلائی مگر کمیونسٹ روس نے ان مسلمانوں کی ایسی ذہنی تطہیر کی کہ اب وہ قرآن پڑھنے کی اجازت بھی نہیں دیتے، ایک وسط ایشیائی ملک کے حکمران پاکستا ن آئے اور احتجاج کیا کہ آپ کے ہاں سے قرآن بھیجے جا رہے ہیں، یہ سلسلہ بند کیا جائے، ہم نے ان کے اس احتجاج کی لاج رکھی اور قرآن کی برآمد پر جو پابندیاں لگا سکتے تھے، لگا دیں۔
مسلم کشی کا ایک سلسلہ فلپائن میں برسوں سے جاری ہے، یہ مورو مسلمان ہیں جو اپنے حقوق مانگتے ہیں مگر فلپائنی حکومت انہیں باغی قرار دیتی ہے۔
اور بھارت میں مسلمان اقلیت پر ہر ظلم روا سمجھا جاتا ہے۔ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے مگر معاہدہ تاشقند کی برکت سے ہم ایک دوسرے کے معا ملات میں مداخلت سے باز رہتے ہیں، پتہ نہیں ہمارے آرمی چیف نے کشمیر اور پاکستان کو لازم و ملزوم قرار دینے والا بیان کس حوصلے میں دیا۔ ان کے پیش رو جنرل مشرف کا بھی ایک زمانے میں کشمیر پر کچھ ایسا ہی خیال تھا، وہ بھارت کے منہ پر کہتے تھے کہ کشمیر آپ کا اٹوٹ انگ نہیں اور پاکستان سے دوستی کرنی ہے تو پہلے اس کور ایشو کو حل کرنا ہو گا، پھر اسی جنرل مشرف کا ذہن پھر گیا اور انہوں نے کشمیر کی بندر بانٹ کے لئے درجنوں منصو بوں کا اعلان کر دیا، ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا دعویٰ ہے کہ کشمیر کی بندر بانٹ کا معاہدہ قریب قریب تیار ہو گیا تھا ، بس شین قاف درست کرنے کا کام باقی تھا کہ عدلیہ تحریک کشمیریوں کی قسمت بدلنے میں حائل ہو گئی، پتہ نہیں اس عدلیہ تحریک نے کس کس کی قسمت میں تبدیلی کا راستہ روک دیا تھا مگر آج جب آرمی چیف ایک اصولی موقف کا اعلان کرتے ہیں تو میں ان سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ کشمیر پالیسی پر جی ایچ کیو کی مستقل پالیسی ہونی چاہئے، ایک آرمی چیف ایوب خان تھے جنہوں نے کشمیر سے نکلنے والے دریا بھارت کے ہاتھ بیچ دیئے۔ اس کی وجہ سے ہمارا ملک بنجر ہو رہا ہے اور قحط سالی کا عفریت ہمیں ڈکارنے کے لئے منہ کھولے کھڑا ہے۔ایک قائد اعظم تھے جنہوں نے کشمیر کو پاکستان ی اقتصادی شہہ رگ قرار دیا اور ہم یہ سبق بھول گئے، اب دنیا کہتی ہے کہ کشمیر کو بھی بھول جائو۔
پتہ نہیں بوسنیا کے مسلمانوں کی ہم نے کیسے مدد کی تھی۔سننے میں آیا ہے کہ جو ٹرانسپورٹ طیارے بوسنیائی مسلمانوں کے لئے خوراک کے تھیلے لے جاتے تھے، ان میں ہم نے اسٹٹنگر میزائل چھپا کر وہاں پہنچائے، ان میزائلوں نے یوگو سلاویہ کے بکتر بند ڈویژن کا صفایا کر دیا۔مگر اب سعودی عرب نے یمن کی جائز اور قانونی حکومت کی بحالی کے لئے مدد مانگی تو ہم میں سے ہر کسی نے صاف انکار کر دیا، اس رویئے کے بعد ہم کس منہ سے پان اسلام ازم کا نعرہ لگاتے ہیں، ہم کیسے کہتے ہیں کہ ہر ملک ماست، کہ ملک خدائے ماست۔کبھی ہم کہتے ہیں کہ چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا۔ مگر ہم اپنے آپ کو تو سنبھال پائیں، یہی غنیمت ہو گا۔
کہنے کو ہم نے ایک اسلامی کانفرنس بھی تشکیل دے رکھی ہے، اس ادارے کو غیر فعال بنانے میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، ایک اسلامی کانفرنس بھٹو دور میں منعقد ہوئی اور اس کے پردے میں ہم نے بنگلہ دیش تسلیم کر لیا، اس کے سوا اس پلیٹ فارم سے کوئی نیکی بدی نہیں ہو سکی۔یہ ادارہ اس قدر بانجھ کیوں ثابت ہوا۔
اب تو ہم خود اپنے ایٹم بم کا مذاق اڑاتے ہیں، یہ بم بنانے کا مقصد تو یہ تھا اور دنیا نے اس بم کو یہی نام دیا کہ اسلامی بم ہے مگر صد حیف! یہ طاقت بھولے سے استعمال نہیں ہو سکی، ہمارے ایٹمی دانتوں سے کوئی خائف نہیں ہوتا، کارگل میں ہمیں مار پڑی، روز لائن آف کنٹرول پر مار پڑتی ہے، بھارتی را کے بارے میں ہم خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے بلوچستان کو جہنم میں تبدیل کر رکھا ہے تو پھر چودھری شجاعت والا سوال کہ کیا یہ ایٹم بم ہم نے شادی بیاہ پر پٹاخے بجانے کے لئے بنایا تھا۔
جب عالم اسلام کے قلعے کا یہ عالم ہو تو روہنگیا مسلمان اقلیت کس شمار قطار میں ہے، آیئے، ہم چند نعرے لگانیکا شوق پورا کر لیں، اپنے آپ کو دکھی مسلمانوں کا ہمدرد ثابت کر لیں۔ اسکے سوا ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔چیلیں اور کوے ان مسلمانوں کی لاشیں ساحل سمندر پر نوچتے رہیں گے یا سمندری مگر مچھ ان کو زندہ ہڑپ کرتے رہیں گے۔پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے آرمی چیف سری لنکا کے دورے سے فارغ ہو کر برما سے بھی ہوتے آئیں، اس علامتی دورے ہی سے روہنگیا کے مظلوموں کو بڑا سہارا ملے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38