آج لاہور میں سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز اور چائنہ کے عنوان سے فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے زونل آفس میں ایک بہت اچھی نشست ہوئی جس میں تقریباً تمام سٹیک ہولڈرز موجود تھے۔ پاکستان میں چینی بینک کے منیجر خاص طور پر اسلام آباد سے آئے تھے۔ ان کے علاوہ صدر چائنیز بزنسمین ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر وانگ ژئی اور پاکستانی بینکوں میں SME شعبے سے ڈیل کرنے والے افسران کے علاوہ پنجاب انوسٹمنٹ بورڈ سمیڈا اور SMEبزنس سپورٹ فنڈ کے اہم نمائندے بھی شریک تھے۔ تقریب کا اہتمام صدیق الرحمن رانا نے کیا تھا اور صدارت کے فرائض زونل چیف اظہر سعید بٹ نے انجام دیے۔
کافی لمبی تقریب تھی لیکن بہت سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لئے SMEکے شعبہ کو اولیت دینی ضروری ہے اور صرف اس شعبہ کے مسائل حل کر کے پاکستانی معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ انہیں کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ سٹیٹ بینک کی ہدایات پر عملدرآمد کیوں نہیں کرتے؟ جبکہ سٹیٹ بینک زراعت کے لئے دیے جانے والے قرضوں کی باقاعدہ مانیٹرنگ کرتا ہے۔ پورے پاکستان میں 16برانچوں میں ایسا عملہ موجود ہے۔ اگر وہ SMEکو دیے جانے والے قرضوں کی مانیٹرنگ بھی کریں تو پھر بے روزگاری میں بہت زیادہ کمی ہو سکتی ہے۔ اکیڈیمیہ اور SME میں قریبی تعلق کا فقدان ہے۔ اگر حکومت مجبور کر دے کہ صرف ماہانہ 100 طلبہ کو کاروباری لائن میں کھپایا جائے تو ہر شہر میں ہزاروں بے روزگاروں کو روزگار میسر آ جائے گا۔
پاکستان چائنا جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل صلاح الدین حنیف نے کہا ”اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کھل کر چین سے اپنے کاروباری تعلقات وسیع کرے۔ مشترکہ منصوبے صرف ہائی لیول پر ہی نہیں بلکہ SMEشعبہ میں بھی ضروری ہیں۔ اس وقت پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین اپنی ٹیکنالوجی تک ٹرانسفر کرنے کے لئے تیار ہے ورنہ جن ممالک سے ہم نے اربوں ڈالر کی مصنوعات منگوائی ہیں وہ کسی ایک چیز کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
فیصل بینک کے علی رضا نے کہا کہ ہمارے بینک کو اعزاز حاصل ہے کہ ہم SME اور زراعت کو دوسرے بینکوں سے زیادہ سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے بینک اس لئے انہیں سرمایہ فراہم نہیں کرتے کہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ شاید لیا ہوا سرمایہ واپس نہ کر سکیں لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ SME سیکٹر اور زراعت میں ایماندار افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر شفیق نے بتایا کہ اس وقت پنجاب میں 23چیمبرز آف کامرس اور 43 ایسوسی ایشنز، 40بینک اور 46یونیورسٹیاں ہیں۔ صرف SMEکی ترقی کے لئے واضح پالیسی نہ ہون کی وجہ سے اس شعبہ کی ترقی کو بریکیں لگی ہوئی ہیں۔
پاکستان میں چینی بینک کی دو برانچیں کراچی اور اسلام آباد میں قائم ہیں۔ اسلام آباد بینک کے منیجر نے نوائے وقت کو بتایا کہ پاکستان اور چین کے درمیان اپنی اپنی کرنسی میں کاروبار کرنے کا معاہدہ سرکاری سطح پر صرف دونوں حکومتوں تک محدود ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ چینی سیلولر فون کمپنی زونگ کی اکاﺅنٹ منیجر سفینہ جمال نے بتایا کہ ہماری کمپنی پاکستان اور چین کے تاجروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم خدمات انجام دے رہی ہے۔ بہت سے ایسے پیکج تیار کئے ہیں جن سے دونوں ملکوں کی ٹریڈ میں اضافہ ہوا ہے۔
صدیق الرحمن رانا نے گفتگو کا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے بتایا کہ آج کی تقریب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز کے لئے ایک روڈ میپ بنا کر حکومت کو پیش کیا جائے تاکہ اس شعبہ کے مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کئے جا سکیں۔ سب سے اہم سوال ہے کہ اس شعبہ کو قرضے بہت کم کیوں جاری کئے جاتے ہیں۔ اکیڈیمہ اور انڈسٹری میں سب سے زیادہ تعلق اسی شعبہ میں پیدا کیا جا سکتا ہے۔ پیداواری اخراجات کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ انرجی کا مسئلہ اس شعبہ کے لئے الگ طریقے سے حل کیا جائے کیونکہ سمال انڈسٹریز کی سٹیٹس اور دوسرے صنعتی زونز کے لئے بجلی کا الگ سسٹم قائم کیا جائے اور چین کے تعاون سے چھوٹے چھوٹے بجلی گھر بنا کر پیداواری یونٹوں والے علاقوں کو چوبیس گھنٹے بجلی کی سپلائی دی جائے۔ نئی مارکیٹوں تک رسائی فراہم کی جائے اور ان پیداواری یونٹوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے جن کی مصنوعات ایکسپورٹ ہونے کے قابل ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ بزنس لرننگ کے محمد منیر احمد نے بہت اچھا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ”میں خود سٹیٹ بینک سے وابستہ رہا ہوں۔ سٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ SME کے لئے اپنے قرضوں کی شرح میں اضافہ کریں لیکن کمرشل بینک ان احکامات کو تسلیم نہیں کر رہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024