نوازشریف کی ہدایت کے مطابق قانونی ٹیم کے وکیل نظر ثانی کی اپیل کررہے ہیں۔ یہ اپیل سپریم کورٹ میں ہی داخل کی جارہی ہے جس نے نوازشریف کو نااہل قرار دیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے تو نوازشریف اور اُن کے دوست کیا کریں گے۔ برادرم خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ ہم نے یہ فیصلہ تسلیم کیا ہے۔ قبول نہیں کیا۔ وہ لوگوں کو یہ بتا دیں کہ تسلیم کرنے اور قبول کرنے میں کیا فرق ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ برادرم سعد رفیق کو معلوم ہے کہ نوازشریف کے خلاف اگر سازش ہورہی ہے تو یہ سازش کون کررہا ہے؟ وہ اپنے لیڈر نوازشریف کے کان میں بتا دیں، سرگوشی کریں۔ مگر پاکستان میں سیاسی راستوں پر ہمیشہ سرگوشی شرگوئی بن جاتی ہے۔ میری گزارش ہے کہ نوازشریف موٹروے اور جی ٹی روڈ دونوں کو چھوڑیں اور ہوائی جہاز کے ذریعے لاہور آجائیں۔ لیکن یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ ن لیگ میں ایک ہی مقرر ہے اور وہ خواجہ سعد رفیق ہے میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ اب بھی لیڈری اُن کے مزاج کا حصہ ہے ان کے بھائی اور صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق مجھے بہت پسند ہیں۔
میں یہ کالم لکھ رہا تھا اور میرے سامنے ٹیلی وژن پر ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری ناصر باغ میں جلسۂ عام سے خطاب کررہے تھے ان کی تقریر میں وہی لذت ہے!
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس سے پہلے برادرم شیخ رشید کی تقریر بھی بہت دلپذیر تھی میں نے انہیں بھی گارڈن کالج راولپنڈی میں ایک بہت مقبول اور بہادر سٹوڈنٹ لیڈر کے روپ میںدیکھا۔ اُن دنوں بھی وہ بہت جوش و جذبے سے تقریر کرتے تھے انہوں نے سٹوڈنٹس یونین کا صدارتی انتخاب بڑی شان سے جیتا تھا مدمقابل پرویز رشید سے تب بھٹو کے جیالے تھے خواجہ آصف اور پرویز رشید کا قصور ایک جیسا تھا مگر نواز شریف نے پرویز رشید کو سزا دی خواجہ آصف کو سینے سے لگا لیا۔ کبھی اس بارے میں پرویز رشید نے غور کیا۔ مجھے پرویز رشید سے ہمدردی ہے مگر میں اس کی روتی سسکتی خاموشیوں کی حمایت نہیں کر سکتا۔
میرا خیال ہے کہ اب پھر سوچ بچار ہو گی کہ کیا نواز شریف جی ٹی روڈ سے لاہور آئیں گے؟
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی ایک دن پہلے لاہور آمد اور ان کی دھواں دھار تقریر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس سے پہلے شہبازشریف اور چودھری نثار کے مشورے کے باوجود نوازشریف نے جی ٹی روڈ سے لاہور آنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے کی بات یونہی کر دی ہے!!
مجھے امید تو نہیں کہ وہ جی ٹی روڈ سے لاہور آئیں گے۔ وہ اس سے پہلے کبھی جی ٹی روڈ سے لاہور نہیں آئے۔ تو ان کا فیصلہ کوئی عام فیصلہ نہیں ہے۔ خاص فیصلہ خاص الخاص فیصلہ ہے وہ اس ملک کے تین بار وزیراعظم رہے ہیں ان کی حمایت عوام میں ہو گی اور عوام شاید ان کے لئے سڑک پر آ بھی جائیں اور اگر ان کے مقابلے میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے لوگ بھی آ گئے تو پھر کیا بنے گا۔
علامہ طاہر القادری نے واضح طور پر کہا کہ نوازشریف جی ٹی روڈ سے لاہور آنے کا ارادہ منسوخ کر دیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کیا کرتے ہیں وہ قادری صاحب کی بات نہ مانیں مگر اپنے بھائی شہباز شریف اور خودار دوست چودھری نثار کی بات مان لیں۔ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں چودھری صاحب وزیر شذیر نہیں بنے مگر سنا ہے کہ وہ لاہور تک نوازشریف کی گاڑی ڈرائیو کریں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024