یمن سے پاکستانیوں کو بحفاظت نکال لیا گیا۔ یہ کارنامہ موجودہ حکومت کا ہے۔ بہت سے ممالک کے لوگ یمن میں ہوتے ہیں مگر کسی ملک کی طرف سے اتنی تیز ترین سرگرمی اور مضبوط ترین کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کے لئے یمن میں پاکستانی سفارتخانہ اور حکومت پاکستان نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ جو معرکہ آرائی کر دکھائی ہے وہ ہماری دلی مبارکباد کے مستحق ہیں آئندہ بھی ایسی ہی سرگرمی کی امید پاکستانی حکومت سے کی جا سکتی ہے۔ نواز شریف نے ذاتی طور پر دلچسپی لی۔ پاک بحریہ ہوائی اور بری فوج نے بھی مکمل تعاون کیا۔
جب یمن سے بحری جہاز پہنچا تو پاکستانی ساحلوں کے قریب کئی ہیلی کاپٹروں نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ یمن میں رہنے والے پاکستانیوں کو اچھی طرح معلوم ہو گیا ہو گا کہ وطن آخر وطن ہے۔ وہاں موت کا خطرہ بھی تھا مگر ہمارے لوگ اپنے وطن میں اپنے پیاروں کے پاس مرنا چاہتے ہیں۔ مر تو جانا ہے۔ موت کی حیثیت زندگی سے کم نہیں ہے۔
کوئی پردیس میں مر جائے تو اس کے لواحقین کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا جسد خاکی اپنے وطن اپنے گھرلے جایا جائے۔ اس کے عزیز رشتہ دار اسے اپنے ہاتھوں سے مٹی کے سپرد کرتے ہیں تو انہیں تسلی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ سیاچن کے پاس برفانی تودہ گرنے سے کئی فوجی اہلکار برف کے نیچے دب گئے تھے۔ وہ شہید ہو گئے تھے مگر جب ان کو برف زاروں سے نکال کر گھروں تک نہ لے آیا گیا تو ان کے پیاروں کو چین نہ آیا۔ ماں نے اپنے بیٹوں کو بوسہ دیا۔ پھر انہیں قبر میں اتارا گیا۔ قبر آخری ٹھکانہ ہے۔ یہاں آدمی پہنچتا ہے تو سب عزیزوں کو قرار آ جاتا ہے۔ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ ہم نے اپنے پیارے کو اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔ دوسرے ممالک کے کئی لوگ خاص طور پر بھارت کے لوگ بھی پاکستان لائے گئے۔ یہ ایک اچھا انسانی تاثر ہے۔ بھارتیوں کے ہاتھ میں پاکستانی جھنڈیاں تھیں۔ وہ اسے بھارت بھی لے جائیں اور بتائیں کہ پاکستانی کتنے بڑے لوگ ہیں۔
یمن کی صورتحال بڑی گھمبیر ہوتی جاتی ہے۔ یہ تو یمن سے آنے والے پاکستانیوں سے پوچھا جائے کہ ان کا کیا خیال ہے۔ میڈیا والے ان سے سطحی سوال پوچھتے رہے۔ کوئی سنجیدگی سے بات نہیں ہوئی۔ یمن کے لئے سعودی عرب کی مدد کرنے کے لئے طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔
سب سے بامعنی بات مولانا طاہر اشرفی نے کی ہے کہ ہم نہ یمنی بن کے سوچیں نہ سعودی بن کے سوچیں ہمیں پاکستانی بن کے سوچنا چاہئے۔ اس طرح ہم صحیح فیصلہ کر سکیں گے۔ جہاں تک حرمین شریفین کے تقدس کا تعلق ہے تو ہماری جان بھی اس کے لئے قربان ہے۔ اس کے لئے ہم سعودی حکومت کی مدد سے بھی گریز نہیں کریں گے مگر عالم اسلام میں بھڑکنے والی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہمارا فرض ہے۔
پاکستان عالم اسلام کا لیڈر ملک ہے۔ پاکستان اور ترکی مل کر کوئی ایسا کردار ادا کر سکتے ہیں جو پورے عالم اسلام کے لئے سازگار بلکہ خوشگوار ہو گا۔ نواز شریف ترکی کے دورے پر بھی گئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کا اجلاس بھی بلایا ہے۔ یہ بھی قومی اسمبلی میں کہا کہ جو بھی پارلیمنٹ فیصلہ کرے گی ہم اسے من و عن تسلیم کریں گے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی واضح طور پر کہا کہ ہم پارلیمنٹ کے فیصلے کے مطابق عمل کریں گے۔
نواز شریف مہذب آدمی ہیں مگر وزیر دفاع خواجہ آصف نے جو کچھ اسمبلی میں موجود تحریک انصاف کے لوگوں کے لئے کیا۔ وہ قطعاً مناسب نہ تھا۔ اعتزاز احسن نے بجا طور پر کہا کہ خواجہ صاحب مسلم لیگ ن کے لئے پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے چودھری نثار کے لئے بھی انہوں نے ایسی بات کی تھی جس سے پریشانی پیدا ہوئی تھی۔ اسمبلی کی سب جماعتوں نے عمران خان سے اپیل کی کہ وہ واپس اسمبلی میں آ جائیں۔ کنٹینر کی بجائے مسائل اسمبلی میں سامنے لائیں۔جب وہ آ گئے تو اس طرح زبان میں ان کا استقبال کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ آج بھی کھیل بگڑ سکتا ہے۔ اگر عمران خان اعلان کرے کہ وہ اسمبلی سے واک آئوٹ کرتا ہے تو یہ کس کے گیٹ آئوٹ کا خطرہ ہو گا۔ ایک سنبھلتی ہوئی صورتحال پھر بگڑ جائے گی۔ پھر خواجہ صاحب سیاست اور جمہوریت کی کس طرح حفاظت کریں گے۔ اسمبلی میں تحریک انصاف کے لوگوں نے تحمل کا ثبوت دیا البتہ اعتزاز احسن نے جواب دیا۔ یہ ایسا جواب نہیں تھا جو وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو دیا گیا تھا۔ اس کے لئے چودھری نثار نے آخر کار بڑی سوجھ بوجھ سے صورتحال کو سنبھال لیا۔ انہوں نے ہمیشہ نواز شریف اور شہباز شریف کی لاج رکھی ہے ورنہ وہ صرف جواب نہ دیتے لاجواب کر دیتے۔ وہ بہادر سچے اور انا حیا والے آدمی ہیں۔ نواز شریف کو اس مخلص ساتھی کی قدر کرنا چاہئے۔ گڈ گورننس کے لئے ان سے مشاورت کیا کریں۔ پچھلے دنوں ان سے ملاقات ہوئی تو وہ دیر تک مجید نظامی کی باتیں کرتے رہے۔ غیر سیاسی باتیں کرنے میں بھی وہ بڑا کمال رکھتے ہیں۔
اب عمران خان نے کہا کہ انہوں نے کنٹینر پر جو باتیں کہی تھیں ان سب کے لئے میں ثابت قدمی سے کھڑا ہوں۔ اسمبلی میں چلے جانے کے باوجود میں اسمبلی کے لئے وہی خیالات رکھتا ہوں جو کنٹینر پر رکھتا تھا۔ تو اب اس بات کا جواب خواجہ آصف کے پاس ہے؟ عمران بھی جو کنٹینر پر کہتا رہا وہ کسی طرح ٹھیک نہ تھا۔خواجہ آصف نے اس کے لئے بدلہ لے لیا ہے۔ سیاست میں بدلہ نہیں لیا جاتا بدل پیش کیا جاتا ہے۔ خواجہ صاحب سینئر سیاستدان ہیں۔ بڑے باپ کے بیٹے ہیں ان سے اچھی امید ہے مگر اب تو ان سے مایوس ہونے کو بھی جی نہیں چاہتا۔
ہماری کالم نگار طیبہ ضیاء نے لکھا ہے کہ خواجہ صاحب کو نواز شریف اور عمران خان کی جپھی بھول گئی ہے اسے اسمبلی میں تہمینہ دولتانہ اور شیریں مزاری کی ملاقات کی گرمجوشی نظر نہیں آئی۔ آرمی پبلک سکول کے عبرتناک حادثے نے نواز شریف کو بچا لیا اور عمران نے خود ہی دھرنا ختم کیا اور نواز شریف کی طرف سے بلائی گئی قومی مفاد کی ہر میٹنگ میں شرکت کی اور اب اسمبلی میں بھی شرکت کر لی تو اس کا شکریہ ادا کرے۔ جس طرح ان کا شکریہ ادا کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب سیاستدان نہیں ہیں۔ ان کے اس روئیے کے لئے نواز شریف کو معذرت کرنا چاہئے۔ یہ بات ان کے حق میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024