ایک امریکی باس نے اپنے مسلمان ملازم کے بارے میں کہا کہ لنچ بریک کے دوران دوسرے کمرے میں جا کر قالین کوچوم رہا ہوتا ہے ۔ سمجھنے والے سمجھ گئے اس کا اشارہ مسلمانوں کے طریقہ عبادت کی طرف ہے۔ حالت سجدہ میں مسلمان بظاہر ایسا ہی دکھائی دیتا ہے مگر ان لوگوں کو جو سجود کی حقیقت سے غافل ہیں۔ دو سال قبل رینڈی لین نامی ایک امریکی فوجی نے امریکہ کی ایک مسجد میں آگ لگا دی ،اس جرم کی پاداش میں امریکی عدالت نے بیس سال کی قید سنا دی ۔ اس وقت مجرم کیلی فورنیا کی ایک جیل میں قید ہے ۔ دو سال قید کے بعد مجرم نے متاثرہ مسجد کی انتظامیہ کو ایک معافی نامہ بھیجا ہے جس میں اس نے اپنے ضمیر کو ملامت کرتے ہوئے مسلمانوں سے معافی کی درخواست کی ہے۔خط میں لکھا ہے کہ ندامت اور ملامت کا بوجھ اسے چین سے مرنے نہیں دے گا۔ مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے اسے جوابی خط لکھ دیا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے دل میں اس کے لئے نفرت یا تعصب نہیں ۔خط میں اسے دل کے سکون کے لیئے خدا سے رجوع کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بعد از موت منافق کے لیئے شدید عذاب ہے ،دوزخ میں منافق کا درجہ کافر سے بھی نیچے ہے۔ ایک کافر کو احساس گناہ ہو گیا مگر مسلمانوں اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر خود کش حملے کرنے والے منافقوں سے توبہ کی توفیق بھی سلب کر لی گئی ہے۔ منافقین ملامت ،ندامت تو درکنار اپنی گھناﺅنی کاروایﺅں پر فخر کرتے ہیں ۔ ہر قبیح جرم کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں۔ دہشت گردوں کو منافقین ثابت کرنے کے لئے ان کی کارروائیاںکافی ہیں۔ نام اور حلئے مسلمانوں کے مگر کاروائیاں مذہب اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے کی جاتی ہیں ۔ پاکستان کی جیل میں دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ منافقین کے خلاف ایک مثبت اقدام ہے ۔یہ لوگ مسلمانوں کا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے نہ ضمیر ہوتے ہیں اور نہ دل ۔کرائے کے ان قاتلوں کے بارے میں ایک سوچ یہ رکھی جاتی ہے کہ غربت ضمیر خرید لیتی ہے لیکن اس دلیل میں وزن نہیں کہ یہ ملک پہلے روز سے غریب ہے بلکہ آج سے زیادہ پہلے غریب تھا لیکن غریب کا ضمیر خودداری اور ایمان سے لبریز ہوتا تھا ۔پاکستان کے لئے غریبوں نے قربانیاں دیں اور کسی کے آگے نہیں جھکے لیکن آج ایسا کیا ہو گیا کہ غربت نے پیٹ پر پتھر کی بجائے بم باندھ لیا؟ پاکستان کے پرمسئلے اور سوال کا جواب ”بے حسی “ ہے۔ لوگوں میں اللہ کا خوف ختم ہو گیا ہے ۔دنیا کے مال نے امیر غریب سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ پاکستان کے ریستورانوں میں جاﺅ تو انسانوں کی بھیڑ دکھائی دے گی، بظاہر لوگ بڑے زندہ دل اور پر سکون معلوم ہوتے ہیں لیکن بے یقینی کا آسیب ان کے سروں پر ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ساتھ خیریت کے گھر پہنچنے کا احساس نفسیاتی امراض کی صورت اختیار کرتا جا رہاہے ۔ اس ملک کا ہر دوسرا شہری ”انگزائٹی“ کا شکار ہے ۔ امیر طبقہ ڈیپریشن کا شکار ہو تا ہے تو ماہر نفسیات کے پاس چلا جاتا ہے اور غریب روتا ہے تو اولیاءاللہ کی درگاہوں پر چلاجاتا ہے۔عقیدتمندوںکو اس سے سروکار نہیں کہ قبروں والے سنتے ہیں یا نہیں ،انہیںتو دکھ اس بات کا ہے کہ زندہ انسان بہرے ہو گئے ہیں۔روٹی کپڑا کا نعرہ بھی فراڈ نکلا۔ غریب کو جہاں سے بھی روٹی سکون حوصلہ ملے وہی قبر زندہ ہے۔سنگدل اور کرپٹ انسانوںکے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’ انہیں زندہ مت بولو در حقیقت یہ مردہ ہیں‘۔ بلا شبہ ایسے لوگ چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ منتیں اور مرادیں امیرلوگ مانگاکرتے ہیں غریب صرف منت سماجت کر تاہے ۔ دنیاوالوں کے آگے رونے سے قبروں پر رو نے کو پردہ داری سمجھتا ہے ۔ بابا فرید الدین گنج شکر ؒفرما گئے ہیں
میں جانیا دکھ مجھی کو، دکھ سبھائے جگ
اُچے چڑھ کے ویکھیا، تاں گھر گھر ایہا اگ
( میں سمجھا زمانے میں صرف میں ہی دکھی ہوں مگر جب چھت پر چڑھ کر دیکھا توہر گھر سے دکھ کا دھواں اٹھ رہا تھا)
اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر چند گھڑیاں رو لینا بہترین ” تھیراپی “ہے ، زبردست” کتھارسس “ہے۔اللہ سبحان تعالیٰ
شہہ رگ سے بھی قریب تر ہے پھر کیوں مسلمان مکے دوڑا جاتا ہے؟انسان کو جہاں سے سکون ملے وہ وہاں جانا چاہتا ہے ۔ اللہ کا مکان دل میں گھر کر جائے تو بندہ ہر مقام اور ہر حال میں راضی رہتا ہے ۔اطمنان حقیقی ”رضا “ میں پنہاں ہے۔جو اللہ پر راضی ہو گیا ،وہ شفاپا گیا ۔جب تک دل میں ملامت ،ندامت کے احساسات بیدار نہیں ہو ں گے، پیشانی قالین چومتی دکھائی دے گی لیکن رضاکی حقیقت پا گیا تو چلتے پھرتے نماز قائم ہو جائے گی۔