موسم بدلتے رہتے ہیں ۔ یہ بدلتے موسم موڈ اور کیفیات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان موسموں سے جڑی یادیں ماضی سے نکلنے نہیں دیتیں ۔ خوشگوار یادیں اور کبھی بے قرار یادیں ۔خزاں جدائی کا موسم ہے ۔ اداسی اور تنہائی کا موسم ہے۔ انتظار اور فراق کا موسم ہے۔پتے رنگ بدل رہے ہیں ،شاخوں سے ٹوٹ کر پیروں تلے روندے جاتے ہیں ۔کسی شاعر نے جدائی کو موت سے تعبیر کیا ہے ،جدائی موت ہوتی ہے ،کبھی فرصت ملے تو دیکھنا پتوں کا گرنا ،کہ جب یہ شجر سے کٹ کر زمین پر آن گرتے ہیں ،تو کیسے روندے جاتے ہیں،ٹھٹھرتی رات کے خاموش لمحوں میں ،کسی دکھی ماں کسی بیٹی کی تم سسکیاں سن لو ،کبھی قطار سے بچھڑی کونجوں کے نوحے سن لو،نگاہ کرنا کس طرح ایک دوجے کی جدائی پہ بین کرتی ہیں، کبھی رخصت کے لمحوں میں کسی کی آنکھ سے لڑھکتے ہوئے آنسو دیکھو گے تو شاید جان پاﺅ گے جدائی موت ہوتی ہے۔۔۔ خزاں پھر لوٹ آئی ہے، ماں کی بیٹی کی باپ کی یادیں پھر ساتھ لا ئی ہے ۔ میں گھر میں سب سے چھوٹی ہوں ، میرے حصے میں ماں آئی ہے ۔۔۔!اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہو گیا، ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اجالا ہو گیا،اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے ،ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے ،بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشان چھوا ،اٹھایا گود میں ماں نے تب آسمان چھووا،کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دوکاں آئی،میں گھر میں سب سے چھوٹی تھی میرے حصے میں ماں آئی، بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے، بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے، بہت جی چاہتا ہے قید جاں سے ہم نکل جائیں، تمہاری یاد بھی لیکن اسی ملبے میں رہتی ہے
،یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتی، میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے، میری خواہش ہے کہ میں پھر سے فرشتہ ہو جاﺅں، ماں سے اس طرح لپٹ جاﺅں کہ بچہ ہو جاﺅں، میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو ،مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا ،عمر بھر خالی یوں ہی ہم نے مکاں رہنے دیا،میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں ،بس اک کاغذ پہ لکھا شبد ”ماں“ رہنے دیا۔۔۔
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتی ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
ماں جب زمین پر ہوتی ہے تو اس کے آنسو عرش ہلا دیتے ہیں اور جب عرش پر ہوتی ہے تو اس کی مسکراہٹ زمین کو گلزار بنا دیتی ہے۔ماں کی زندگی میں اولاد کو دعا کا سلیقہ نہیں آتا۔ اولاد پردیس جا کر آباد ہو جائے ،ماں کا دل اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ ماں کا گھر بھی عجیب ہوتا ہے،ماں دنیا سے چلی جائے تب بھی بیٹیاں کہتی ہیں کہ ”ماں کے گھر جا رہی ہوں“۔ماں کے دئے ہوئے زیورات اور کپڑے سینے سے لگا ئے رکھتی ہیں ۔شوہرخواہ دنیا کی تمام دولت بیوی کے پیروں میں ڈھیر کردے ،باپ کا دیا معمولی تحفہ بھی بیٹی کےلئے کوہ نور ہوتا ہے۔ بیٹی کی جدائی باپ کےلئے موت ہوتی ہے۔ تری ہجر وصل کی داستاں رُلاتی ہے زار زار،پت جھڑ آئے موسم بدلے،آ مل جا اِک بار،لمبے دن اور سُونی راتیںدل ہے بے قرار،ترا نعم البدل نہیں ہے کوئی جہاں میں بیٹی یادیں ہیں بے شمار،جس نے دیا ہے زخم یہ گہراوہی لگائے گا پار،مرنے سے پہلے مر گئے بیٹی،اٹھائیں گے کیسے یہ بھار،ہم بھی تجھ سے آن ملیں گے دن رہ گئے ہیں دو چار۔اور پھر لگا کر اپنے سینے سے کہا یوں ماں نے بیٹی سے کہ ہو گی زندگی دشواراب تیری جدائی سے،محبت تیری زندگی میں زخم ِ دل سینے نہیں دے گی ،جدائی تیری اے بیٹی مجھے جینے نہیں دے گی،لگا کر اپنے سینے سے کہا یوں ماں نے بیٹی سے ،تجھے نظروں سے اک پل بھی جدا ہونے نہ دیتی تھی ،اگر تو ضد پہ اڑ جاتی تجھے رونے نہ دیتی تھی ،زمانے بھر کے میں نے غم اٹھا کے تجھ کو پالا تھا،میرے گھر میں تیرے دم سے اجالا ہی اجالا تھا،چلتے ہیں تیرے بعداس دل پہ غم کے تیر اے بیٹی، پھرتی ہے میری نظروں میں تیری تصویر اے بیٹی ،یہ گھر آنگن جوتیرے دم سے جنت کا نمونہ ہے ،تیری رخصت کے غم سے آج کتنا سُونا سُونا ہے ۔۔۔اور جس ماں کا لخت جگر ابھی تک سکول سے نہیں لوٹا، اس پراتنی مہربانی کرنا کہ اس کے گھر کا دروازہ کھلا رکھنا کہ ماں کی نظریں اس دروازے پر لگی ہوئی ہیں جو کسی بھی لمحے کھلے گا اور اس کے جگر کا ٹکڑا دوڑتا ہوا ماں کے سینے سے لپٹ جائے گا،ماں کے رخسار چومے گا اورکہے گا’ ماں تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے ،وقتِ رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا۔جدائی موت ہے۔ماں دھی کا دکھ سکھ ساری عمر ”کسک“ بن کر دہکتا رہے گا۔اور باپ وہ سورج ہے جس کی روشنی میںتپش ہے مگر غروب ہو جائے تو چار سو اندھیرے چھا جاتے ہیں۔باپ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا کہ ”مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ ،میرے بچے مجھے بوڑھا ہونے نہیں دیتے‘۔۔۔!