سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ، سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل برادرم پرویز اختر ملک 5 سال بعد کل مجھ سے مِلنے کے لئے آئے۔ اُن کے ساتھ ہم دونوں کے مشترکہ دوست ماہر تعلیمات سیّد یوسف جعفری بھی تھے۔ دونوں صاحبان بھٹو صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ارکان رہے، بھٹو صاحب غریبوں کے حق میں انقلاب نہ لا سکے تو دونوں نے پارٹی چھوڑ دی تھی۔
جنرل راحیل شریف مارشل لاءنافذ کریں گے؟
پرویز اختر ملک نے مجھ سے پوچھا اثر چوہان صاحب! آپ نے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود سے ماضی کی مختلف حکومتوں کے رُوحِ رواں 92 سالہ جناب روئداد خان کا انٹرویو دیکھا/ سُنا؟ تو مَیں نے کہا کہ جی ہاں! ملک صاحب نے کہا کہ روئداد خان نے اپنے تجربے کی روشنی میں کہا ہے کہ ”اپنی مُدّتِ ملازمت پوری ہونے سے پہلے ہی جنرل راحیل شریف مارشل لاءنافذ کردیں گے۔“ میں نے اُنہیں مرزا غالب کا یہ شعر سُنایا ....
قفس میں مجھ سے رُودادِ چمن، کہتے نہ ڈر ہمدم!
گری ہے جِس پہ کل بجلی، وہ میرا آشِیاں کیوں ہو؟
سیّد یوسف جعفری نے کہا کہ ”آشِیاں پر مارشل لاءکی بجلی کب گرے گی؟ کوئی نہیں بتا سکتا۔“ روئداد خان صاحب کا انٹرویو مَیں نے انٹرنیٹ پر دوبارہ دیکھا / سُنا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف ایک "Page" پر نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف سیاستدانوں اور مذہبی لیڈروں سے مُک مُکا کی سیاست کرتے ہیں اور جنرل راحیل شریف دہشت گردوں اور کرپٹ سیاستدانوں کا مکمل صفایا کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔ سندھ کے بعد پنجاب کے کرپٹ سیاستدانوں کی باری ہے۔“
بقول جناب روئداد خان ”5 جولائی 1977ءسے کئی مہینے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور آرمی چیف جنرل ضیاءاُلحق بھی ایک ہی "Page" پر نظر آتے تھے اور اُن دِنوں بھی بھٹو صاحب کی صدارت میں سکیورٹی کے معاملے پر اعلیٰ سطحی اجلاس ہوتے تھے، جِس طرح آج کل وزیراعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں ہو رہے ہیں۔“ جناب روئداد خان ”بابائے جمہوریت“ نہیں ہیں۔ وہ تو اپنے انداز میں رُودادِ چمن“ بیان کر رہے تھے۔ اب تو ”بابائے جمہوریت“ کہلانے والے نوابزادہ نصر اللہ خان کے مرتبے کا بھی کوئی سیاستدان نہیں ہے حالانکہ وہ بھی مذاکرات کے ذریعے مارشل لاءرکوانے میں ناکام رہے تھے۔ جمہوریت ہو یا مارشل لاءعوام کو کیا فرق پڑتا ہے؟ ....
اپنی بلا سے بُوم رہے یا ہُما بسے؟
”اندرون مُلک پھنسے ہُوئے پاکستانی؟“
حکومت نے عُمرے کے لئے سعودی عرب میں پھنسے 4 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو خیریت سے وطن واپس لانے کے انتظامات کر لئے ہیں متعدد پروازیں پاکستان پہنچ گئی ہیں۔ اچھی بات ہے ۔ بیرونِ ملک پاکستانی جہاں بھی پھنسے ہُوں انہیں وطن واپس لانا ہر حکومت کا فرض ہے اور سعودی عرب میں پھنسے بہت سے ایسے پاکستانی بھی ہوں گے جو اپنی جمع پونجی یا اپنے محبت کرنے والے بھائیوں اور بیٹوں کی مالی قربانی سے حرمینِ شریفین کی زیارت کے لئے گئے تھے۔ ممکن ہے اُن میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہوں جو جب بھی موقع مِلتا ہے سرکاری خرچ پر عُمرے کے لئے تشریف لے جاتے ہیں؟ مجھے نہیں معلوم کہ ملامتی صوفی شاعر بابا بُلّھے شاہ کبھی حج یا عُمرے کے لئے سعودی عرب گئے تھے یا نہیں لیکن اُنہوں نے ....
حاجی لوک مکّے نُوں جاندے
تے میرا رانجھا ماہی مکّہ
کا فلسفہ بیان کر کے مُفلوک اُلحال مسلمانوں کو "Guideline" دے دی تھی۔ لیکن یہ نُسخہ نہیں بتایا تھا کہ ”جِس شخص پر کسی ”رانجھا ماہی“ کی نظرِ کرم نہ ہو وہ کیا کرے؟ بابا بُلّھے شاہ نے تو یہ بھی کہا تھا کہ ....
منگ اُوئے بندیا اللہ کولُوں گُلّی، جُلّی، کُلّی!
یعنی ”اے بندے! تُو اللہ سے روٹی، کپڑا اور مکان مانگ“ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی سوشلزم کے نام پر بابا بُلّھے شاہ کی پیروی میں یہی نعرہ اپنا لِیا تھا۔ بھٹو صاحب کے بعد اسلام اور جمہوریت کے نام پر مختلف حکومتوں نے بھی۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں 40 فیصد اور صدر زرداری کے دَور میں 50 فیصد پاکستانی غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ وزیراعظم نواز شریف کے دَور میں اُن کی تعداد 60 فیصد ہوگئی ہے۔ اُن لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے۔ دیہات کے گندے جوہڑوں سے جانور اور بے زمین لوگ ایک ساتھ پانی پیتے ہیں۔ شہروں کی کچی بستیوں کے مکِین بھی جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جہالت کے باعث عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ خوشحال زندگی کیا ہوتی ہے؟ غریبوں کے پڑھے لِکھے نوجوان بیٹے بے روزگار ہیں۔ وہ منشیات کے عادی ہو رہے ہیں اور دِین سے گمراہ دہشت گردوںکے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ بیمار اور بوڑھے والدین کی شادی کے قابل بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اندرون ملک پسماندگی کی دلدل میں پھنسے ہُوئے پاکستانیوں کو کون نکالے گا؟
"Ishaq Dar, on "Mean Politics?"
ہفتہ کو سرکاری چُھٹی تھی۔ اِس کے باوجود وفاقی وزیرِ خزانہ جناب محمد اسحاق ڈار نے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے قوم کو بتایا کہ ”آئی ایم ایف سے میرے مذاکرات کامیاب رہے۔“ یہ اطلاع تو جنابِ ڈار مختلف نیوز چینلوں پر پہلے ہی دے چکے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہفتے کے دِن ڈار صاحب کا عوام کو حکومت مخالف سیاستدانوں کی "Mean Politics" (گھٹیا سیاست) سے آگاہ کرنا تھا۔ مَیں نے جنابِ ڈار کی تقریر نہیں سُنی۔ اُردو اور انگریزی اخبارات میں پڑھی ہے۔ اُردو اخبارات کے مطابق وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ ”ملکی معیشت پر سیاسی جماعتیں گھٹیا سیاست نہ کریں“ اور انگریزی اخبارات کے مطابق انہوں نے کہا کہ "We Request the Opposition Parties not to Plunge into Mean Politics"
سوال یہ ہے کہ ڈار صاحب نے حزبِ اختلاف کی مذّمت کے لئے "Saturday" (ہفتے کا دِن) کیوں منتخب کِیا۔ ہفتہ تو یہودیوں کا "Sabbath Day" (یومِ سبت) ہے اور "International Monetary Fund" (I.M.F) کے بارے میں مشہور ہے کہ اُس پر ”یہودیوں کا غلبہ“ ہے۔ مزید سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور جنابِ ڈارکے مذاکرات واشنگٹن یا اسلام آباد میں کیوں نہیں ہُوئے؟ دُبئی میں کیوں ہُوئے؟ کیا اِس لئے کہ دُبئی میں ڈار صاحب کا بیٹا رہتا ہے ، جِسے ڈار نے کاروبار کرنے کے لئے 40 لاکھ ڈالر اُدھار دئیے تھے؟ (اور اُس شریف بیٹے نے وہ واپس بھی کر دئیے تھے)۔
یہ انگریزی زبان بھی خوب ہے گھٹیا ، اوچھے اور بد مزاج شخص کو "Mean" کہا جاتا ہے اور بڑے دبنگ اور طاقتور شخص کو بھی مثلاً "A Mean Fighter" ۔ مَیں چونکہ بااخلاق شخص ہُوں اِس لئے میں لفظ "Mean" کسی مِنسٹر کے لئے استعمال نہیں کرتا۔ کسی زبان دراز شخص کو خبردار کِیا جاتا ہے کہ "Hold your Tongue" لیکن اُردو شاعر نے اِس مفہوم کو بڑی ملائمت سے بیان کِیا، جیسے ....
اے شیخ! گفتگو تو شرِیفانہ چاہیے!
اِس مِصرع میںعلمِ عروض کا خیال رکھتے ہُوئے ”شیخ“ کے بجائے ”ڈار“ فِٹ ہو سکتا تھا لیکن مَیں جنابِ ڈار کا احترام کرتا ہُوں۔ بقول شاعر....
جانتا ہُوں تیری حقیقت کو
پرتیرا احترام کرتا ہُوں