دنیا میں سب سے زیادہ خوش رہنے والوں میں ناروے کے عوام کا پہلا نمبر ہے جبکہ ڈنمارک دوسرے، آئس لینڈ تیسرے، سوئٹزر لینڈ چوتھے اور فن لینڈ پانچویں نمبر پر سب سے خوش باش ممالک ہیں۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی نے جاری کی ہے۔ اس دلچسپ رپورٹ کو مرتب کرنے کیلئے دنیا کے تقریباً 150 ممالک کے مخصوص افراد سے نفسیاتی نوعیت کے سوال کیے جاتے ہیں اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کتنے خوش ہیں اور اس کے پیچھے عوامل کیا ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس فہرست میں پاکستان کا 80 واں نمبر ہے جبکہ بھارت 122 ویں اور افغانستان 141 ویں نمبر پر ہے۔ دیگر ممالک میں امریکا 14ویں اور برطانیہ 19 ویں نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں ناروے کے عوام سب سے خوش وخرم جبکہ اس کے برعکس صحارا خطے کے افریقی ممالک دنیا کے سب سے زیادہ ناخوش ممالک ہیں….اور اگر حسد کا سروے کیا جائے تو پاکستان کے عوام نمبر ون ہیں۔الا ما شا اللہ مقابلہ حسد میں پاکستان کے لوگوں کا کوئی ثانی نہیں۔بچے عورتیں مرد تو درکنار بڈھے بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یہی چاہتے کہ کوئی ان سے آگے نہ بڑھے ، سوائے ان کی اولاد کے۔ پاکستان کے تمام شعبوں میں زمانہ قدیم کے افراد قابض ہیں اورجونئیر ز یا نئے آنے والے لوگوں کے لئیے ان کے دل بخیل ہیں البتہ دل لبھانے والوں اور والیوں کے لئیے دل کشادہ رکھتے ہیں۔وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے حاسدین ان کی ناک کے نیچے نہیں بلکہ ان کی بغل میں موجود ہیں۔ حاسدین کا ایک طبقہ میڈیا پر کسی مخصوص ایجنڈے پر فائز ہے جو منفی سوچتے اور خیر میں بھی شرتلاش کرتے ہیں۔ بالخصوص حاسدین ٹی وی دانش وروں اور اینکرز کی دکان تب تک نہیں سجتی جب تک وہ خیرمیں سے شر اور مثبت میں سے منفی پہلو تلاش نہ کریں۔وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اس وقت 67سال کے ہوچکے ہیں اور اس عمر میں وہ اس قوم کے چیف ایگزیکٹیو ہیں اور بیمار ہونا بھی فطری امر ہے لیکن اس قوم میں نوٹنکی بازمیڈیا بھی موجود ہے۔وزیر اعظم کی اوپن ہارٹ سرجری ہو یا ان کے گردے میں پتھری کا شبہ ہو جائے ، حاسدین چوٹ لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ "ہم نہ سمجھے تیری سیاست کا تقاضا کیاہے، کبھی قطری کبھی پتھری یہ تماشہ کیاہے۔۔۔۔دل جلے تکلیف کو بھی ڈرامہ سمجھتے ہیں ، یہ حسد نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔حاسدوں کے ایک ٹولے کو یہ گھمنڈہے کہ وہ دنیا میں سب سے بڑا صادق القول ہے۔ اور ان کے منہ سے نکلنے والا سچ ہی کھرا سچ ہے۔ وہ بستر مرگ سے لے کر کسی کی ذاتی زندگی تک جب چاہے جس کی پگڑی اْچھالیں جسے بلیک میل کرے جس کانام لے کر کردار کشی کریں یہ سب ان کا حق ہے کیونکہ ان کی چرب زبانی دراصل
آزادی اظہار رائے ہے۔ اور ایک ٹولہ میڈیا میں وہ ہے جو مافیا کی صورت اقربا پروری اور مفاد پرستی کا قائل ہے۔کسی نئے پرانے کو اندر گھسنے کی اجازت نہیں دے سکتا کہ اس کا ایجنڈا اپنی اولاد کو پروموٹ کرنا ہے۔ پاکستان میں حاسدین کی اجارہ داری ہے۔ کسی کی عزت اور شہرت دوسرے سے ہضم نہیں ہو پاتی۔سیاستدانوں میں حسد کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی پارٹی سے منسلک دوسرے سے بغض رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف اپنی قیادت کے کان بھرتے ہیں۔حسد کی اس وبا میں مریم نواز اور عمران خان میں مقابلہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کہتی ہیں کہ عمران خان حسد کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔عمران خان کہتے ہیں کہ لفافہ صحافت عوام سے حقائق چھپانا چاہتی ہے لیکن حقائق لفافہ پھاڑ کر نکل آئے ہیں۔۔۔لفافہ صحافیوں کی محنت کو پسپائی سے دوچار کرنے میں عمران خان کی پاناما لیکس مددگار ثابت ہوئی۔ حاسدین کی ایک بڑی تعداد مذہبی طبقہ میں بھی موجود ہے۔ کوئی پیر مولوی اپنے ہم پیشہ کو برداشت نہیں کر سکتا۔حسد کی وبا پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستانی دنیا میں جہاں کہیں آباد ہیں حسد میں ماشا اللہ خود کفیل ہیں۔ کافر کو ترقی کرتا دیکھ کر انہیں اتنا دکھ نہیں ہو گا جس قدر تکلیف انہیں ہم وطن کو آگے بڑھتا دیکھ کر ہوتی ہے۔ہم بھی ناروے جا چکے ہیں، وہاں کا قدرتی حسن انسان کو خوش رکھتاہے البتہ حسد کا مرض سب سے زیادہ خوش رہنے والا ملک ناروے میں بھی پاکستانیوں کو ناخوش رکھتا ہے۔ حسد اور خوشی متضاد علامات ہیں۔ اپنے سگے رشتے داروں کی ترقی ، خوشحالی اور خوشی پر بھی جل کر کباب ہونے والے پاکستانی دنیا میں کہیں چلے جایئں ، خوش اور مطمئن رہنا ان کا مقدر نہیں ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024