لاہور میں اتنا بڑا واقعہ ہوا کہ پنجاب حکومت اور انتظامیہ کو مبارکباد دینا چاہیے۔ ایک آدمی نے بورڈ اٹھایا ہوا تھا کہ لاہور لاہور اے۔ پی سی بی چیئرمین شہریار خان نے برملا کہا کہ اتنا بڑا ایونٹ شہباز شریف کی دلیری سے ممکن ہوا ہے۔ کرکٹ کے روح رواں برادرم نجم سیٹھی نے شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کی بہت تعریف کی ہے۔
لاہور میں بہت کم عرصہ پہلے خودکش دھماکہ ہوا ہے۔ ایسے میں یہ عالمی سطح کا مقامی میچ واقعی بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ اس میں سی سی پی او لاہور امین وینس اور ایس ایس پی ایڈمن ایاز سلیم کی کوششوں کا بھی بہت حصہ ہے۔ وزیراعلیٰ نے ہر معاملے میں ذاتی دلچسپی لی تو یہ پروگرام بڑی آسودگی سے انجام پایا۔ ان مشکل حالات میں اتنے لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا دیر تک میچ دیکھنا اور بہت خوشی سے منتشر ہو جانا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ میچ سے کچھ دیر پہلے شہباز شریف خود کرکٹ میچ کھیلتے ہوئے دکھائی دیے۔ انہوں نے چوکے چھکے بھی لگائے اس میچ کا اتنی رونق سے منعقد ہونا بھی حکومت اور انتظامیہ کا ایک چھکا ہے۔
باہر کے کھلاڑی بھی آ گئے اور ڈھول کی تھاپ پر ڈانس کرتے رہے۔ کسی طرح کا کوئی خوف خطرہ ان کے دلوں میں نہ تھا۔ حاضرین کے ساتھ مل کر انہوں نے میچ کو پوری طرح انجوائے کیا۔ میڈیا نے بھرپور طریقے سے اس معرکے کو بیان کیا۔
دہشت گردی شرپسندی کو شکست فاش ہوئی۔ قومی عزم جیت گیا۔ شہباز شریف نے کہا دہشت گردوں پر واضح ہو گیا ہے کہ پاکستانی ایک بہادر قوم ہے۔ انہوں نے ایک مختلف جذبے سے بات کی کہ ہم نے خوف کو ہرا دیا۔ جب کوئی قوم خوفزدگی سے نکل جاتی ہے تو پھر اسے شکست دینا ناممکن ہو جاتا ہے۔ قوم نے بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کر کے فائنل کو یادگار بنا دیا۔ اب یہ بات بھی فائنل ہو گئی ہے کہ پاکستان جیت گیا ہے۔
یہ عجیب بات تھی کہ دونوں پاکستانی ٹیمیں پشاور اور کوئٹہ آمنے سامنے تھیں۔ کوئٹہ بظاہر ہار گیا مگر پشاور کے لوگوں نے بھی یہی کہا کہ پاکستان جیت گیا۔ اس عالمی سطح کے مقامی میچ کا انعقاد لاہور میں ہوا۔ زندہ دلان لاہور نے میلہ لوٹ لیا۔
نواز شریف نے کہا کہ پی ایس ایل کے فائنل سے ہم مزید مضبوط اور متحد ہوئے ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ نہیں ریساں شہر لاہور دیاں۔ یہ محاورہ آج اور زیادہ اچھا لگا۔ گلوکاروں علی ظفر، فاخر، علی عظمت نے آواز کا جادو جگایا مگر شائقین اور جذبے والے پاکستانیوں میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ ہم چند دہشت گردوں کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ میچ کے دوران اتنے بڑے ہجوم میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میچ ملتوی کر دیا جائے یا لاہور کے علاوہ کسی اور شہر میں منعقد ہو مگر پنجاب حکومت اور انتظامیہ ڈٹ گئی کہ فائنل ہو گا اور لاہور میں ہو گا۔ لاہور میں میچ ہوا خوب ہوا۔ بہت لوگوں نے گرائونڈ میں دیکھا اور خوب دیکھا۔ لاہور لاہور اے۔ نہیں ریساں شہر لاہور دیاں۔ خود وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے قذافی سٹیڈیم میں میچ دیکھا۔
برادرم شیخ رشید پنڈی سے بذریعہ ریل گاڑی لاہور آئے عوامی انداز میں میچ دیکھا مگر رہے فائیو سٹار ہوٹل میں؟ پسند کے ناشتے کے لیے بھی ناراض ہو گئے۔ پائے اور چنے باہر سے ہوٹل والوں سے منگوائے۔ یہ ایک نیا کلچر پیدا ہو رہا ہے کہ رہنا فائیو سٹار ہوٹل میں اور ناشتہ گوالمنڈی سے پائے اور چنے کا۔ میڈیا ریس میں موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھنے والے شیخ رشید فائیو سٹار ہوٹل میں رہتے ہیں اور ناشتہ گوالمنڈی والا کرتے ہیں۔ امیرانہ اور غریبانہ ماحول رلا ملا دینے والے شیخ رشید سے میں دوستی رکھتا ہوں۔ وہ گورڈن کالج میں میرے سٹوڈنٹ تھے۔ پرویز رشید بھی میرے سٹوڈنٹ تھے مگر شیخ صاحب بہادر آدمی ہیں۔ بھٹو کا عاشق زار پرویز رشید اب نواز شریف کے لیے انڈر گرائونڈ چلا گیا ہے۔ وزیر تو شیخ رشید بھی نواز شریف کا رہا ہے۔ یہ وزارت اسے مجید نظامی کی سفارش پر ملی تھی۔ بھلا بوجھیں تو جانیں کہ پرویز رشید کو کس کی ’’سفارش‘‘ پر وزارت ملی۔ نواز شریف نے اس کے متبادل کے طور پر مریم اورنگ زیب کو وزیر بنایا ہے۔ ان کی کارکردگی اچھی ہے۔ زعیم قادری نے کہا ہے کہ شیخ رشید کو جوتا مارنے پر میں معافی مانگتا ہوں۔ زعیم قادری سے گذارش ہے کہ جوتا مارنے اور جوتا پھینکنے میں فرق ہوتا ہے۔ ہجوم میں شیخ صاحب پر جوتا پھینکا گیا مارا نہیں گیا۔ زعیم قادری شیخ صاحب کو جوتا مارنے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ کبھی زعیم قادری کی طرف سے جوتا پھینکا نہیں جائے گا۔ انہیں معافی مانگنے کی کیا ضرورت آ پڑی ہے۔ جو کام آپ نے کیا ہی نہیں ہے تو اس کے لیے تکلف کی کیا ضرورت ہے۔ پھر بھی نجانے زعیم قادری کے دل میں کیا ہے۔ وہ شریف برادران کے مخالفوں کو سبق سکھانے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔
ہماری ایک بہت سرگرم تخلیقی شخصیت اور بہت پڑھی لکھی خاتون ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کا ایک شعر سنیں:
اکٹھے رہ کے جو دیتے ہیں چھائوں سب کو
میں ایسے سب شجر تقسیم کرنا چاہتی ہوں
ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ وہ ورلڈ کالمسٹ کلب کے خواتین گروپ کی چیئرپرسن ہیں۔ اس کلب میں رابعہ رحمان بھی ہیں۔ روح رواں ناصر اقبال خان ہیں۔ عمرانہ کی دس کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں پانچ شاعری کے حوالے سے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے لیے بھی ایک کتاب ہے۔ ایک ناول بھی انہوں نے لکھا ہے۔ وہ کالم بھی لکھتی ہیں۔ مختلف ادبی اور سماجی تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کی ادبی سرگرمیاں بہت معروف ہیں۔ ادبی بیٹھک اور لاہوری ناشتہ بہت مقبول سرگرمی ہے۔ اپنی ایک تنظیم تفکر انٹرنیشنل کانفرنس کے نام سے بنائی ہوئی ہے۔ ان کی بیٹی فاطمہ اینکر ہیں اور ماں کے لیے ہر معاملے میں بہت معاون ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024