حزب اختلاف کے خلاف لکھنا بولنا آسان اورصاحب اقتدار کے خلاف لکھنا مشکل ہے۔ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ان لوگوں کے لئے آسان ہے جن کی پشت پناہی ملک کے مقتددر ادارے کر رہے ہیں لیکن مجھ جیسا قلم کار جو امریکہ میں رہتے ہوئے امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف بھی بیباک لکھے اور پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستانی بد عنوانوں کے خلاف بھی بے خوف لکھے، دور حاضر میں اسے بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ٹیکس ادا کرتی ہوں اور اپنا گھر ہے۔ وطن عزیز جا کر مہینوں قیام کرتی ہوں۔ جیب سے فلاحی ادارہ چلاتے ہیں۔ ملک کے غریب مستحق عوام سے تعلق ہے۔ عوام کی حالت زار کو قریب سے دیکھ کر حکمرانوں کے خلاف قلم زہر تو اگلے گا۔ عوام اور حکمرانوں کے طرز زندگی میں شرمناک فرق اور فاصلہ دیکھ کر کرپٹ عناصر پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مزید ظلم کہ ظلم کے خلاف امریکہ کی نسبت پاکستان میں آواز اٹھانا مشکل ہے۔ برین واش طبقہ پاکستان کو غلام بنائے رکھنے پر یقین رکھتا ہے۔ چڑھتے سورج کو سلام پاکستان کا اہم ترین کلچر ہے۔ ہم جیسے چڑھتے سورج کو سلام کی بجائے ڈھلتے سورج کی خیر خیریت پوچھتے ہیں۔ نواز شریف کے خاندان کے اقتدار کاسورجْ جب مشرف نے غروب کر دیا تو اس خاندان کی ہم نے اپنی تحریروں سے بہت دل جوئی کی لیکن اقتدار میں آئے تو نظام حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ حاکم وقت کے منہ پر کلمہ حق کہنا ضمیر کی مجبوری ہے۔مسلم لیگی نظریہ ہمارا رومانس ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کے نام پر بنائی گئی جماعتوں کی دو نمبری برداشت نہیں ہوتی۔ نقل ہمیشہ اصل کی ہوتی ہے۔ اصل مسلم لیگ اور کارکن تو وقت کے ساتھ رخصت ہوگئے اور نقل مسلم لیگوں نے جنم لے لیا۔ اصل مسلم لیگیوں کا رومانس ان کا آزاد پاکستان تھا اور ہے۔ اصل مسلم لیگیوں کا رومانس ان کی جماعت تھی اور ہے۔ گو کہ اس وقت پاکستان نظریاتی مسلم لیگ سے محروم ہے لیکن رومانس نقل میں اصل کی مشاہبت تلاش کرتا ہے۔ بھٹو کے عاشق زرداری کے ساتھ بھی لگ گئے کہ رومانس بھٹو تھا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے عاشق مسلم لیگ سے منسلک ہو گئے۔ بابائے قوم تو نہ رہے لیکن ان سے والہانہ عقیدت نے مسلم لیگ کو دلوں میں زندہ رکھا۔ یہ وہی رومانس ہے جو نقل پر بنائی گئی مسلم لیگوں کے ساتھ بھی جاری رہا۔ مسلم لیگی نظریاتی گھرانوں میں پرورش پانے والی نسلوں میں دو قومی نظریہ کا شعور ابھی زندہ ہے۔اگر کسی پارٹی یا قائد سے رومانس ملک یا نظریہ کی محبت پر غالب آنے لگے تو سمجھو معاملہ ذاتی پسند و نا پسند کا ہے۔ پاکستان سے محبت کا حقیقی تقاضا یہی ہے کہ ملک اور دو قومی نظریہ پہلے بعد میں ذاتی پسند۔پاکستان بنانے والے مسلم لیگی چند ایک ورکرز ابھی حیات ہیں اور موجودہ مسلم لیگوں سے بے حد مایوس اور افسردہ ہیں۔ بزرگوں نے آزادی کے لئیے قربانی اس لئے نہیں دی تھی کہ ان کی نسلیں غلام ابن غلام ابن غلام بنا دی جائیں۔ میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کے نام پر جماعت بنائی، بہت مقبولیت پائی مسلم لیگیوں کو رومانس کا کھل کر موقع دیا۔ نواز شریف سے پیار مسلم لیگ سے رومانس کے سبب سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ کا رومانس ہی ہے جس نے نواز شریف کو تین بار وزیراعظم بنایا۔ لیکن مسلم لیگیوں میں ایک طبقہ موروثیت اور غلام ابن غلام کے فارمولے کا قائل نہیں۔ ضمیر و شعور کی آواز پر لبیک کہنے والا یہ مسلم لیگی طبقہ موروثیت کو ووٹ دینے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دے گا۔ مسلم لیگ پاکستان کی بنیاد ہے اور بنیاد پرستوں کا رومانس حالت کرب میں مبتلا ہے۔ قائداعظم سے کسی نے پوچھاکہ آپ نے اپنی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو حکومتی عہدہ نہیں دیا حالانکہ تحریک پاکستان میں وہ آپ کے شانہ بشانہ رہیں۔ قائداعظم نے فرمایا یہ پاکستان میں نے اپنی بہن کے لئے نہیں پوری قوم کے لئے بنایا ہے… بنیاد پرست مسلم لیگی اپنے لیڈر محمد علی جناح کی سوچ نظریہ اور سیاست کو مرنے نہیں دے سکتے۔جب اور جہاں مسلم لیگ نواز ڈنڈی مارے گی،ہمارا قلم جھنجھوڑے گا۔ پورے ملک میں سرکاری سکولوں کا حال شرمناک ہے۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں، مساوی نظام تعلیم میسر نہیں۔ گوشت اور خوردونوش کی اشیا غریب کو تو نصیب میسر نہیں اور جن لوگوں کو میسر ہیں وہ زہر کھا پی رہے ہیں۔ نظام صحت نظام تعلیم نظام عدل نظام زندگی کہیں واضح مثبت تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔پاکستان میں عوام ہی عوام کو پال رہے ہیں اور حکمران اپنے گھر بینک رشتے داروں اور خوشامدیوں کو پال رہے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کا ایک ہی وطیرہ چلا آرہا ہے کہ برے وقت میں جو ورکرز ان کا ساتھ دیں،حکومت میں آکر ان کے احسانوں کا انعام پاکستان کی امانت سے چکایا جائے۔ قومی خزانہ لٹایا جائے۔ پاکستان کے عہدے حق داروں کی بجائے بلا تمیز بانٹے جائیں۔ خوشامدی کالم نگار سیاستدانوں کا مضحکہ خیز شجرہ نسب لکھتے ہیں کہ فلاں وزیر نے میاں صاحب کا جلا وطنی میں ساتھ دیا فلاں نے بیگم کلثوم کی ہمت بندھائی۔ تو بدلہ اپنی جیب سے دیں۔پاکستان نے کیا جرم کیا ہے جو اس پر اپنے خوشامدیوں اور محسنوں کو مسلط کردیا جاتا ہے اور بار بار کیا جاتا ہے جیسے پاکستان ان چند خاندانوں کے باپ کی جاگیر ہے؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38