وزیراعظم محمد نواز شریف نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے کہ وزیراعظم ہاﺅس جس کا نیا سرکاری نام وزیراعظم آفس رکھا ہے وہاں رہنے میں عافیت سمجھی ہے اور یہ ایک عقلمندانہ فیصلہ ہے کیونکہ وزیراعظم آفس صرف وزیراعظم کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ دوسرا اچھا کام یہ کیا ہے کہ پہلی میٹنگ لوڈ شیڈنگ پر کی ہے اور ہماری معلومات کے مطابق سعودی عرب سے تیل کی مسلسل فراہمی کا معاملہ زبانی تو طے پا چکا ہے اور سعودی عرب نے اس بارے میں اتنی فراخدلی کا ثبوت دیا ہے کہ تیل کی قیمت بعد میں کسی وقت ادا کر دی جائے۔ محمد نواز شریف کے عمرے کے موقع پر اس معاملہ میں مزید پیش رفت ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ اور سب سے اہم مسئلہ گردشی قرضوں کا ہے۔ چھان بین اور آڈٹ کے بعد جو صحیح رقم واجب الادا ہو گی وہ دوست ملک کے تعاون سے ادا کر دی جائے گی لیکن IPPs کا یہ مطالبہ قابل قبول نہیں ہے کہ جس پیریڈ میں انہوں نے بجلی پیدا نہیں کی ہے انہیں اس پیریڈ کا بھی پورا معاوضہ ادا کیا جائے۔ ہو سکتا ہے یہ ایشو عدالت عالیہ کے پاس چلا جائے اگر IPPs نے حقیقت پسندی سے کام نہ لیا کیونکہ PSO کو چھوڑ کر جو تیل دوسری کمپنیوں سے خریدا گیا ہے اس کے کچھ خریداری کے معاملات تصدیق چاہتے ہیں۔
محمد نواز شریف نے اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں پہلی تقریر میں کچھ اہم امور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پالیسی بیان کی جس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ تمام اہم اداروں اور کارپوریشنوں وغیرہ کے سربراہوں کا تقرر میرٹ پر کیا جائے گا اور اس مقصد کے لئے اخبارات میں اشتہارات بھی دیے جائیں گے۔ آج اس سلسلہ میں اشتہار آیا بھی ہوا ہے۔ اس اہم مسئلہ کو تھوڑا سا تفصیل سے زیربحث لانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا تجربہ بھی پاکستانی قوم کے سامنے ہے جہاں ایک بہت تجربہ کار گورے کو سربراہ بنایا گیا۔ اس گورے کے بارے میں دنیا کے ہر بزنس نیوز پیپر اور میگزین نے مضامین شائع کئے اور بتایا کہ اس نے دنیا کی ناکام ترین بجلی کی کمپنیوں کو کیسے اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا اور پھر فائدے میں پہنچا دیا۔ جب وہ کراچی کے لئے روانہ ہو رہا تھا تو اس کے ایک پاکستانی دوست نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ”تم اپنی تمام ذہانت اور صلاحیتوں کے باوجود کراچی الیکٹرک کمپنی کو منافع بخش نہیں بنا سکو گے اور بالآخر استعفی دے کر واپس آ جاﺅ گے۔ گورے نے کہا دیکھا جائے گا میں ناکام واپس نہیں آﺅں گا۔ لیکن پورے کراچی کے ساتھ باقی پاکستان نے بھی دیکھا کہ وہ گورا ناکام واپس گیا۔ کیوں؟ صرف اس وجہ سے کہ اس کی ناک کے نیچے جو نالائق لوگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اپنا مافیا اتنا مضبوط بنایا ہوا تھا کہ اسے توڑنا ناممکن تھا۔ شاہد خاقان عباسی سے خود نواز شریف پوچھ سکتے ہیں کہ پی آئی اے کی ناکامی کا حقیقی سبب کیا ہے تو جو کچھ شاہد خاقان عباسی بیان کریں گے اسے سن کر نواز شریف حیران و پریشان رہ جائیں گے۔
اس لئے محمد نواز شریف کا پہلا قدم قابل تعریف ہے کہ تمام اداروں کے سربراہوں کا تقرر میرٹ پر کیا جائے لیکن اس تقرر سے پہلے نیچے کام کرنے والوں کو ”ذہنی غسل“ دینے کی ضرورت ہے کہ اب صرف وہ ملازمت پر رہے گا جو قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرے گا۔ ورنہ پھر مجبوراً اس کی جگہ نیا آدمی آ جائے گا۔ اس وقت پاکستان کے تمام بڑے محکموں کو ”ڈیپوٹیشن“ نے کھوکھلا کر دیا ہے۔ ایک نااہل کسی طریقے سرکاری ملازمت میں آ جاتا ہے اور پھر کچھ مال خرچ کر کے کسی ”چمک“ والی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔ اسے محکمہ کی کوئی پرواہ نہیں ہوئی کیونکہ اسے تو معلوم ہے کہ وہ صرف تین سال کے لئے اس محکمہ میں لوٹ مار کرنے آیا ہے۔ صرف اس ایک نااہل کی وجہ سے باقی پورا محکمہ بھی برباد ہو جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عوامی شکایات کا ازالہ کسی پلیٹ فارم پر نہیں کیا جا رہا۔ سرکاری افسر شکایت کرنے والے شہریوں سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے اور ”صاحب میٹنگ میں ہے“ کی گردان جاری رہتی ہے اور شکایت کرنے والا اپنی قسمت کو کوستا ہوا واپس چلا جاتا ہے۔ سرکاری افسر کو علم ہے کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔ یقین نہیں آتا تو گذشتہ پانچ سال کی انٹی کرپشن وفاقی محتسب، صوبائی محتسب وغیرہ کی کارکردگی دیکھ لیجئے۔ صارف عدالت سے عام شہریوں کو کچھ انصاف ضرور ملا ہے لیکن ان کے پاس تشہیر کا بجٹ ہی نہیں۔ اکثریت کو صارف عدالتوں کی افادیت کا علم نہیں ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024