امریکی وزیر دفاع علاقے کے دورے پر آئے تو ایک نئی اصطلاح کے ساتھ۔ پہلے ڈو مور کا مطالبہ ہوا کرتا تھا، شاید یہ لفظ اپنی اہمیت کھو چکا ہے یا پاکستان نے اس کے جواب میں نو مور کہہ دیا ہے تو اس کی جگہ ڈبل اپ کا مطالبہ داغ دیا گیا ہے، یعنی پہلے سے دگنی محنت کرو اور اچھے بچے کہلاﺅ مگر پاکستان نے پھر سے وہی کہا ہے کہ ہم جو کچھ کر سکتے تھے کر چکے، اب سب کچھ امریکہ کو کرنا ہے،یا نیٹو کی افواج کوکرنا ہے یاا فغان فوج کو کرنا ہے اس لئے کہ پچھلے چند ہفتوںمیں پاکستان میں دہشت گردی کے جو سنگین تریںواقعات ہوئے ، ان کے ڈانڈے افغان سرزمین سے ملتے ہیں اور پاکستان کے پاس افغان ٹیلی فون کالوں کا ریکارڈ موجود ہے۔افغانستان نے جھٹ سے جواب میں کہا کہ وہ پاکستان کو ہر لحاظ سے مطمئن کرنے کو تیار ہے ، تو پاکستان نے بھی یہی جواب دیا ہے کہ جیسے کسی کو اطمینان ہو سکتا ہو، اس کے لئے پاکستان بھی تیار ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ نائن الیون کا سانحہ امریکہ میں ہوا۔ یہ سانحہ امریکی انٹیلی جنس کی غفلت، نااہلی یا ملی بھگت سے رونما ہوا ، لوگ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ پانچ گھنٹوں تک پانچ جہاز غائب رہے اور امریکہ کو ان کی گم شدگی کا علم نہ ہو سکا، دوسرا سوال پاکستان کا ہے کہ نائن الیون میں ایک بھی پاکستانی شریک نہیں تھا نہ کوئی پاکستانی نژاد ، نہ کوئی پاکستان سے سفر کر کے نیویارک گیا تو پھر اس سانحہ کے ذمے داروںکو ٹھکانے لگانے کی ڈیوٹی پاکستان کی کیسے ہو گئی اور پندرہ برس گزر گئے پاکستان مارا ماری کر رہا ہے، لال مسجد سے مارکٹائی کا سلسلہ شروع ہوا، سوات تک پھیلا ، پھر ایک ایک کر کے فاٹا کی تمام ایجنسیاں صاف کی گئیں اور اب پورے ملک میں ردالفساد کے نام سے آپریشن جاری ہے۔
پہلی غلطی امریکہ نے کی کہ ناحق افغانستان میں فوجیں اتار دیں ، اور افغانوں کی کھکھر کو چھیڑ دیا ، پھر دوسری غلطی پاکستان نے کی کہ قبائلی علاقے میں تیس برس سے مقیم غیر ملکیوںپر چڑھائی کر دی، یہ بھی کھکھر سے چھیڑ چھاڑ کے مترادف تھا، ان غیر ملکیوںنے افغان جہاد میں حصہ لیا ، اس جہاد کے لئے امریکہ نے ڈالر بھی دیئے اور سٹنگر بھی۔ جہاد کے نتیجے میں سوویت روس پسپا ہو گیا اور بالا ٓخر ٹوٹ پھوٹ گیا۔ یہ غیر ملکی جہادی پاکستان کے ہو کے رہ گئے، یہاں کاروبار جما لیا ، شادیاں بھی کر لیں اور پاکستانی پاسپورٹ ا ور شناختی کارڈ بھی بنو الئے۔یہ لوگ سوویت روس کی افواج قاہرہ کے قابو نہیں آئے مگر ہم نے ان کا بھرکس نکال دیا اور اگر کوئی بچ گیا تو جان بچانے کے لئے افغانستان چلا گیا ، اب انتقام لینے کے لئے وہیں سے گھات لگاتا ہے ، اسے اسلحہ بھارت سے مل جاتا ہے، افغان فوج بھی انہیں استعمال کرتی ہے ا ور امریکی اور اتحادی افواج بھی ان کو پاکستان میں قربانی کے بکروں کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔اب یہ چند سو تھے یا چند ہزار ، یہ انڈے بچے تو دے نہیں رہے کہ ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہو، پاکستان انکو جتنا مار سکتا تھا، اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ا ور ان لوگوں کو کسی ایکشن کے قابل نہیں چھوڑا ، پھر بھی امریکہ کے منہ پر ڈو مور کی گردان رہتی ہے، اب کس کے خلاف ڈو مور کیا جائے، کیا پہاڑوں کو ڈائنامائٹ کیا جائے۔ یا پاک فوج سنگلاخ چٹانوں سے سر پھوڑے۔ امریکہ ناحق مطالبے پر مطالبہ کئے جا رہا ہے،اس نے پاکستان کو لسی بھیڈ سمجھ لیا ہے جبکہ اسے ا حساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک ایٹمی پاور ہیں ، شارٹ ۔ میڈیم اور لانگ رینج میزائلوں سے مسلح ۔ سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت تو ٹھیک کہتے ہیں کہ کیا ہم نے ایٹم بم شادی بیاہ پر پٹاخے چھوڑنے کے لئے سٹور کئے ہوئے ہیں۔اس اسلحے کا خوف پیدا کیا جائے ، امریکہ تو پاکستان کو سرے سے نہتا سمجھتا ہے، کیوں، یہ ہمارے ماضی کے لیڈروں کی نااہلی تھی کہ آنکھیںنہیں دکھا سکے ، اب وزیر اعظم اورا ٓرمی چیف بھی ڈو مور کے جواب میںٹھوک بجا کر نو مور کہتے ہیں ، اور ڈبل اپ کے جواب میں بھی ہمارا موقف وہی ہے کہ ہم بہت کر چکے،ا ب مزید کرنے کی گنجائش نشتہ ، نہ سکت کہ امریکہ نے ہماری دفاعی امداد بند کر دی ہے، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم امریکہ کے مبینہ دشمنوں کو مارنے کے لئے اسلحہ روس یا چین یا شمالی کوریا سے لیں ۔یہ تو نرا لطیفہ ہو گیامگر یہ لطیفے والی بات نہیں ، المیے والی ہے، جنرل مشرف نے کسی سے مشورہ کئے بغیر پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونکا تو بہت جلد امریکہ نے اسے پاکستان کی جنگ بنا دیا ، وہ ہماری بہترین پیشہ ور اور مسلمہ تربیت یافتہ فوج کو کمزور کرنا چاہتا تھا ،چنانچہ اسے کئی محاذوں پر الجھا دیا، محترمہ بے نظیر کی شہادت اور اے پی ایس کے نونہالوں کی قیامت کے بعد تو ہم نے یقین ہی کر لیا کہ یہ جنگ امریکہ کی نہیں، پاکستان کی ہے، اس سے پہلے مسجدوں مزاروں، بازاروں میں دھماکے ہوتے تھے تو ہم سمجھتے تھے کہ یہ بھارتی شر پسندوں کا شاخسانہ ہیں ، کامرہ ، نیول بیس اور آئی ایس آئی بلکہ جی ایچ کیو تک یلغار ہوئی تو بھی ہم نے اسے بھارتی را کی کارستانی ہی سمجھا مگر پھر اے پی ایس کے سانحے نے ہماری سوچ بدل دی اور ہم نے اسے پاکستان کی جنگ بنا لیا۔ اس جنگ میں ہمارے ساٹھ ہزار افراد شہید ہو چکے، ان میں سے چھ ہزار کے قریب فوجی ا فسرا ور جوان بھی شامل ہیں، ہماری معیشت کو ستر ارب کا نقصان پہنچا۔ اتنے بڑے نقصان کے بعد بھی ہم اسے اپنی جنگ ہی سمجھے جا رہے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ کسی دشمن نے ہمیں جان بوجھ کر اس جہنم میں دھکیل رکھا ہے اور وہ کبھی ڈو مور کہہ کر ہمیں اکساتا ہے اور کبھی ڈبل اپ کا تازیانہ لگا دیتا ہے۔
بات اب حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے ، اب ہماری قیادت کو محسوس ہو گیا ہے کہ ہمیں استعمال کیا جارہا ہے ، اسی لئے ہم نے نو مور کہہ دیا ہے ا ور یہ بھی کہ جو کچھ ہم نے کیا، وہ کسی ا ور ملک نے نہیں کیا، اب دنیا اپنے حصے کا کام کرے، پاکستان روزروز کے تقاضوں کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا، خدا کرے ہم اس پالیسی پر ثابت قدم رہیں۔
٭٭٭٭٭