جب چیف ایڈیٹر صاحبہ محترمہ رمیزہ مجید نظامی کا ٹیلی فون آیا کہ ہفتہ کی دوپہر پنجاب ہائوس میں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف سے پنجاب ہائوس میں ملاقات ہے تو میں اپنی ہفتہ وار چھٹی میاں نواز شریف سے ملاقات کے اشتیاق میں منسوخ کر کے بروقت پنجاب ہائوس پہنچ گیا وہاں جا کر معلوم ہو ا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والیکم و بیش 36 اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا ہے عام تاثر یہ تھا کہ میاں نواز شریف اپنی ’’معزولی ‘‘ کے عوامل پر روشنی ڈالیں گے لیکن ان سے ملاقات کرنے والے صحافیوں کو نواز شریف سے ان سے’’ راز‘‘ کی بات اگلوانے میں ناکامی ہوئی کچھ اخبارنویس تو لاہور سے اسلام آباد آئے ہی اس مقصد کے لئے تھے لیکن انہیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب میاں صاحب نے کہا کہ ’’ میں نے توآپ لوگوں کی باتیں سننے کے لئے مدعو کیا ہے ہم اگلی بار لاہور میں ملیں گے میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے جو کچھ ہوا ابھی تک سمجھ نہیں آرہا یہ سب کچھ کیوںکر ہوا؟ وہ ایک لمحہ کے لئے رکے ہی تھے میں نے ان پر سوال داغ دیا ‘‘ میاں صاحب ! 2014ء سے آپ کی حکومت گرانے کی کوشش کی جارہی تھی دھرنا1اوردھرنا2کی ناکامی کے بعد آپ کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 62،63کا سہارہ لیا گیا ہے کیا آپ اقتدار سے ہٹائے جانے کے فیصلے کے پیچھے عوامل پر سے پردہ اٹھائیں گے ؟ قوم کواعتماد میں لیں گے کہ انہیں تیسری بار وزارت عظمیٰ سے کیوں ہٹایا گیا؟ میاں نواز شریف جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاست دان ہیں اس وقت ملک میں ان کے پایہ کا کوئی لیڈر نہیں وہ اس وقت اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے تھے اور کہا کہ ’’مناسب ‘‘ وقت کا انتظار کریں فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا‘‘ میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ’’ کوئی کرپشن کی اور نہ ہی کوئی کک بیک لی سرکاری خزانہ میں کوئی کرپشن کی ہوتی تو کوئی بات تھی، ایک بیٹے نے پیسے باہر سے بھجوائے دوسرے بیٹے کی کمپنی سے کوئی تنخواہ نہیں لی اس پر اعتراض سمجھ سے بالا تر ہے ۔ کسی وزیر اعظم سے اس سے بڑا اور کیا مذاق ہو سکتا ہے ‘‘ انہوں نے کہا کہ بہت کچھ سمجھ میں آ رہا ہے میں کہنا بھی چاہتا ہوں لیکن ابھی خاموش رہنا چاہتا ہوں،جس طرح سے میرے ساتھ ہوا ہے میں اس پر ابھی تک خاموش ہوں میں نہیں چاہتا کہ کسی طرح کی کوئی انتشار والی بات ہو لیکن میں ہمیشہ خاموش بھی نہیں رہوں گا آہستہ آہستہ لوگ بھی خود سمجھ جائیں گے‘‘ نواز شریف ایک دکھی سیاست دان ہیں جو اپنے دکھ دکھانا چاہتے ہیں لیکن مصلحتوں کا شکار ہیں ان کے ارد گرد’’ عقاب‘‘ صفت لوگ ’’کڑاکے‘‘ نکالنے کے مشورے دیتے رہے بالآخر ’’کڑاکے نکلوا ہی دئیے اور آج کل ’’کڑاکے ‘‘ نکلوانے والے میاں نواز شریف کے بہت قریب ہیں نواز شریف سے ملاقات کے دوران ایک’’ عقاب صفت ‘‘ دانشور جن سے پرانی یاری ہے سے گلے ملا تو میں نے از راہ مذاق ان کے کان میں سرگوشی کی کہ ’’ کیا حال ہے اس تباہ وبربادی کے معمار کا ‘‘ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا ’’ کیا یہ آپ کی رائے ہے یا کسی اور کی‘‘ ان کا اشارہ جس طرف تھا وہ میں بھی سمجھ گیا اور وہ بھی۔ فی الحال نواز شریف کا’’ بیانیہ ‘‘ تو یہی ہے کہ ان کو جس ناکردہ گناہ میں نکالا گیا ہے کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا سینئر صحافیوں کا ’’اکٹھ‘‘ ان سے وہ بات سننا چاہتا تھا جس کی وہ پردہ داری کر رہے ہیں۔ نواز شریف ایک گہرے سیاست دان ہیں وہ ان صحافیوں کے نرغے میں آنے کے باوجود جوش خطابت میں اپنی بچی کھچی ’’ سلطنت‘‘ کو تباہ و برباد نہیں کرنا چاہتے وہ پھونک کر قدم رکھنا چاہتے وہ کوئی ایسی بات نہیں کہنا چاہتے جو توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہو یا ان قوتوں کو’’ ناراض‘‘ کر دے جو ان کی واپسی کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں ۔ بہر حال میں نے پنجاب ہائوس جہاں پچھلے کئی سال سے چوہدری نثار علی خان کا قبضہ رہا ہے مسلم لیگ (ن) کے عقاب صفت رہنمائوں احسن اقبال ، مریم اورنگ زیب ،پرویز رشید، عرفان صدیقی ، دانیال عزیز طلال چوہدری اور مریم نواز کے تھنک ٹینک کے ارکان ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، مائزہ حمید اور بیرسٹر دانیال چوہدری کو سرگرم عمل دیکھا ہے سینئر صحافیوں سے ملاقات میں مسلم لیگ (ن) کی مقتدر شخصیت راجہ محمد ظفرالحق بھی نواز شریف کے پہلو میں بیٹھی تھی شاید راجہ محمد ظفر الحق اور چوہدری نثار علی خان کے مشوروں کا اثر تھا میاں نواز شریف اسلام آباد سے لاہور تک استقبال کو تاریخی بنانے کی بجائے قدرے دھیمے انداز میں موٹروے کے راستے لاہور جانے پر آمادہ ہوئے بیشتر صحافیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ پر لاہور جائیں میاں نواز شریف نے بھی کہا کہ ’’ میں اب بھی جی ٹی روڈ کے راستے ہی لاہور جانا چاہتا ہوں لیکن مجھے کہا گیا ہے کہ سکیورٹی ایشوز کی وجہ سے موٹر وے کو ترجیح دوں ‘‘ میں نے ان کو چوہدری نثار علی خان کی کا یہ مشورہ یاد دلایاکہ اسلام آباد سے لاہور کا شو تاریخی ہو گا لیکن پھر آپ کو سویپ کرنے کے لئے 2018ء کے انتخابات تک اس ٹمپو کو برقرار رکھنا ہو گا محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1986ء میں جو غلطی کی آپ اسے نہ دہرائیں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر پورا پنجاب امڈ آیا تھا لیکن عام انتخابات کے انعقاد تک وہ’’ ٹمپو‘‘ برقرار نہ رکھ سکیں ۔ میاں نواز شریف نے میری اس بات سے اتفاق کیا لیکن ملاقات کے بعد عقاب صفت مسلم لیگیوں نے موٹر وے کے راستے لاہور جانے کا فیصلہ تبدیل کر ادیا اب میاں نواز شریف اتوار کی بجائے بدھ کو جی ٹی روڈ کے راستے لاہور جائیں گے لاہور سے سینئر صحافیوں کی ایک بڑی ٹیم ان کے ہمراہ لاہور جانے کے لئے اسلام آباد آئی تھی ان کا پروگرام بھی الٹ پلٹ گیا ہے ۔ جب میاں نواز شریف شانگلہ سے اسلام آباد آئے تو بھارہ کہو جو ڈاکٹر طارق فضل کا حلقہ انتخاب ہے کے ہزاروں افراد میاں نواز شریف کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے گھروں سے باہر نکل آئے اس موقع پر محبت و عقیدت کے جو مناظر دیکھنے میں آئے ان کو قلمبند نہیں کیا جا سکتا مسلم لیگی کارکن اپنے قائد پر پھول نچھاور کر رہے تھے کچھ نے تو فرط جذبات میں ان کی گاڑی کو چوم لیا میاں نواز شریف سے یہ منظر دیکھا نہ گیا تما م سکیورٹی کو بالائے طاق رکھتے ہو ئے گاڑی سے باہر نکل آئے بھارہ کہو کی فضا ‘’’ دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا، وزیر اعظم نواز شریف‘‘ کے نعروں سے گونجتی رہی ۔ چوہدری نثار علی خان نے روات کے جلسہ میں عوام کے ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ’’ نواز شریف سے اس کا عہدہ تو چھینا جاسکتا ہے لیکن قیادت سے کوئی محروم نہیں کر سکتا‘‘ میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی ہے جس طرح عوام نے میاں نواز شریف کی نا اہلی کو قبول نہیں کیا اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے اس فیصلے کو قابل در خور اعتنا نہ سمجھا مسلم لیگی قیادت نواز شریف کو اسی طرح وزیر اعظم کہہ کر مخاطب ہوتی ہے جس طرح 12اکتوبر 1999ء میں ان کی حکومت کو غیر آئینی طور ختم کیا گیا لیکن کئی سال تک نواز شریف کو وزیر اعظم کہہ کر مخاطب کیا جاتا رہا ۔ محترمہ رمیزہ مجید نظامی نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو ’’تنہائی ‘‘ کے خول سے باہر نکالیں کچھ دوسرے صحافیوں نے بھی میاں نواز شریف سے ان کی’’ تنہائی ‘‘ پسندی کا گلہ کیا بہر حال میاں نواز شریف کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اب وقفے وقفے سے جلد ملاقاتیں ہوا کریں گی۔ محترمہ رمیزہ مجید نظامی نے ان سے این اے 120 کے امیدوار کے بارے میں پوچھ ہی لیا لیکن میاں نواز شریف طرہ دے گئے اور کہا کہ’’ اس بارے میں جلد فیصلہ کر لیا جائے گا‘‘ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی نے میاں شہباز شریف کو بقیہ مدت کے لئے وزیر اعظم بنانے کے فیصلے کی توثیق کر دی تھی لیکن اب پارٹی قیادت کنفیوژن کا شکار ہے کبھی میاں شہباز شریف کو پنجاب کے لئے ناگزیر تصور کیا جاتا ہے کبھی کہا جاتا ہے میاں شہباز شریف مرکز میں چلے گئے تو پنجاب پر مسلم لیگ(ن) کی گرفت کمزور ہو جائے گی بہرحال مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو کاغذات نامزدگی داخل کرانے سے قبل اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا جس کے بعد صورت حال واضح ہو جائے گی کہ بقیہ مدت کیلئے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہوں گے یا میاں شہباز شریف ۔ ایک سینئر صحافی نے وزیر اعظم کو یہ کہہ کر اشتعال دلایا کہ ’’ میاں صاحب ! جمہوری اداروں پر حملہ ہوا ہے عدالتی قتل میں ایک شخص شکار victim ہوا ہے لوگوں کو بتائیں اس کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ آپ پچھلے چا رسال سے پسپائی اختیار کئے ہوئے ہیں محترمہ فاطمہ جناح شکست کو تسلیم نہ کرتیں تو اس وقت سیاسی نقشہ ہی کچھ اور ہوتا شکست کو مستقل شکست میں تبدیل نہ کیا جائے نواز شریف نے بڑے تحمل سے اس ’’لوڈڈ سوال‘‘ کو یہ کہہ کر’’ میں نے کب کہا ہے مجھے کچھ علم نہیں آہستہ آہستہ سب کچھ سامنے آ جائے گا ‘‘ بے اثر کر دیا اسی صحافی نے میاں صاحب کو حال میں زندہ رہنے کی بجائے تاریخ میں زندہ رہنے کا مشورہ دیا روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جاوید صدیق نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ ’’ دوسری جماعتوں سے مل کر جمہوریت کی لڑائی لڑیں ‘‘ ایک سینئر صحافی نے میاں نواز شریف سے گلہ کر دیا کہ ’’آپ نے ایک ایسے شخص کو کابینہ میں اہم قلمدان سونپ دیا جس کے بارے میں پہلے ہی سوالات اٹھ رہے ہیں ‘‘میاں نواز شریف نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ’’ وہ کہتا جمہوریت سے ڈکٹیٹر شپ بہتر ہے نہ جانے وہ کس دنیا میں رہتاہے ۔ پاکستان آنے کی جرأت نہیں یہاں آئے اور پبلک میں بات کرے تو اسے پتہ چل جائے گا انہوں نے سوال اٹھایا’’ جس نے دو مرتبہ آئین کو پامال کیا اس کو سزا دینے کے لئے کوئی عدالت ہے؟ میاں صاحب نے کہا ہے کہ ’’ آج بھی میثاق جمہوریت پر قائم ہوں اس پر آج بھی عمل ہو سکتا ہے اب دیکھنا یہ ہے پیپلز پارٹی اس کا کیا جواب دیتی ہے میاں صاحب نے کہا ہے کہ ’’ میں نظریاتی آدمی بن چکا ہوں میرا نظریہ مضبوط ہو چکا ہے۔ اللہ کرے نواز شریف اپنے نظریات پر مضبوطی سے قائم رہیں ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024