سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب میں ایٹمی دھماکے کرنے سے سی پیک تک اپنی کارکردگی بیان کی۔ تاہم ایٹمی دھماکے کرنے کا تمام تر کریڈٹ لیتے ہوئے وہ یہ بات بھول گئے کہ اس وقت جب ہر طرف خوف و ہراس چھایا ہوا تھا اور میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ممبران گومگو کی کیفیت میں تھے، ایٹمی دھماکے کرنے کے بارے میں ایک مشاورتی اجلاس میں آبروئے صحافت اور معمار نوائے وقت گروپ مجید نظامی نے کھڑے ہو کر رائے دی کہ ”میاں صاحب آپ نے دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کردے گی“ اور ماضی میں جب کبھی ایٹمی دھماکے کرنے کا ذکر آیا جناب نواز شریف نے ڈاکٹر مجید نظامی کے اس مشورے کو بیان کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا لیکن گزشتہ روز وہ اپنی خدمات اور کارناموں کے ذکر میں اپنے بزرگ کا ذکر بھول گئے۔ مجید نظامی نے اپنے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں شریف برادران سے اپنے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی نواز شریف کی مشاورت یا رہنمائی نہیں کی۔ ’میرا تعلق ان کے والد بزرگوار میاں محمد شریف سے تھا اور اسی وجہ سے باہمی احترام کا رشتہ ضرور موجود ہے۔ اگر میں نے ان کی رہنمائی کرنی ہوتی ہے تو وہ میں اپنے اخبار کے ذریعے کرتا ہوں‘۔جناب مجید نظامی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں سیاست روایتی راستوں سے ہٹتی جا رہی ہے۔ ’ہمارے ہاں اس طرح سیاست نہیں ہے جس طرح ہمسایہ ملک بھارت میں ہے۔ یہاں تو ذاتی اختلافات سیاسی دشمنیوں میں بدل جاتے ہیں۔ ہرکوئی ڈیل کے ذریعے سے اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے ایک خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کوئی سیاستدان بھی جیل یاترا کے بغیر بڑا لیڈر نہیں بن سکتا اور نواز شریف کو بھی جیل جانے سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں جناب مجید نظامی نے کہا کہ وہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے جلاوطنی اختیار کرنے کے فیصلے کو ایک غلط فیصلہ سمجھتے ہیں۔ آج نواز شریف فیملی کو محترم مجید نظامی کا مشورہ بھی یاد آ رہا ہو گا کہ "اقتدار میں آنے کے بعد انہیں کاروبار نہیں کرنا چاہئے"۔ میاں نواز شریف کو 10 دسمبر 2000ءکو خاندان سمیت سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا‘ اس ڈیل کے محرک شوکت عزیز اور ضامن سعد الحریری تھے۔ میاں نواز شریف فیملی سعودی عرب تک محدود تھی‘ 2002ءکے آخر میں میاں شہباز شریف کی بڑی آنت میں کینسر نکل آیا‘ سعودی حکومت نے انہیں جنوری 2003ءمیں امریکا جانے کی اجازت دے دی‘ جنرل مشرف اس فیصلے پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ انہوں نے مجید نظامی مرحوم کو اپنا پیغام بر بنا کر جدہ بھجوا دیا‘ مجید نظامی صاحب نے میاں نواز شریف کو بتایا ”جنرل مشرف چاہتے ہیں آپ راجہ ظفر الحق کو پاکستان مسلم لیگ ن کا سربراہ بنا دیں اور اس کے بعد لندن یا نیویارک جہاں چاہیں چلے جائیں“ میاں نواز شریف نے انکار کر دیا۔ اس ملاقات کے بعد مجید نظامی نے آن ریکارڈ کئی مرتبہ یہ واقعہ دہراتے ہوئے کہا "نواز شریف اپنے علاوہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔ مجید نظامی صاحب کی بات آج پھر سچ ثابت ہوئی۔ نواز شریف پارٹی آئین میں ترمیم کر کے پھر پارٹی صدر بن گئے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے کارکن بجائے اس بات کے لئے لڑ جاتے کہ ہمارا لیڈر بے گناہ ہے انہوں نے آئین ہی تبدیل کر دیا۔ اگر پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ بات ضرور شامل ہو گی۔ ترکی کی مثال دینے والوں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا تو ان کو معلوم ہوتا کہ ترکی نے کئی رہنماو¿ں کی قربانی کے بعد یہ مقام حاصل کیا۔ آج مجید نظامی مرحوم حیات ہوتے تو یقیناً مسلم لیگ ن کی بگڑی صورت دیکھ کر بے لاگ تبصرہ ضرور فرماتے۔