سب سے زیادہ خوشی میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے لیفٹیننٹ جنرل بننے کی ہوئی اور یہ خوشی اس سے بھی بڑھ کر تھی یعنی خوشی سرخوشی بن گئی تھی کہ باجوہ صاحب کو آئی ایس پی آر کے لئے ہی کام کرتے رہنے کی ہدایت کی گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ترقی کے تو بہت مستحق تھے۔ انہوں نے آئی ایس پی آر میں پوری مہارت اور اہلیت سے کام کیا یہ بات ان کے حق میں ایک مضبوط دلیل کے طور پر دی جاسکتی ہے۔ وہ اپنے کام کے لیے بہت مخلص سرگرم اہل اور اہل دل تھے۔ انہوں نے دل سے کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کمٹمنٹ اخلاص اور بے غرضی سے اپنی رشتہ داریوں کو خوب نبھایا اور اب بھی یہاں پہلے کی طرح کام کریں گے۔ سچ بتائوں کے انہیں ترقی دے کے یہاں سے تبدیل کر دیا جاتا تو مجھے خوشی نہ ہوتی مگر وہ ایک زبردست سولجر ہیں۔ ایک سپاہی کو جس بھی مورچے میں بھیج دیا جائے تو وہ پوری لگن سے کام کرے گا بلکہ لگن میں مگن ہو کرکوئی کام کرنا چاہے تو فوجی بھائیوں سے سیکھے۔
لیفٹیننٹ جنرل باجوہ نے آئی ایس پی آر کو بھی ایک میڈیا کور میں بدل دیا ہے۔ یاں بھی اسی ذوق و شوق سے کام کیا جاتا ہے جو کسی بھی کور میں ہوتا ہے۔ اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔ مگر لگتا ہے کہ اب آئی ایس پی آر باقاعدہ ایک ملٹری کور بن چکی ہے۔ اور لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اس کے لیے غیراعلانیہ کور کمانڈر ہیں۔ یہ پاک فوج کی ترجمانی اور نمائندگی ہے۔ اس طرح لیفٹیننٹ جنرل باجوہ اب آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سچے نمائندے اور ترجمان ہیں۔ اسکے لیے ہم اپنے بہت محبوب سپہ سالار آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے پاک فوج کو پوری قوم کے دل کے مورچے میں بٹھا دیا ہے۔ جتنی عزت اور محبت جنرل راحیل شریف کو ملی ہے اس کی مثال صرف 1965ء کی جنگ ستمبر میں ملتی ہے۔
ہمارے ہاں پی آئی ڈی اور ڈی جی پی آر میں جو سیاسی طور پر کام کرتی ہیں بہت اچھا کام ہوتا ہے مگر جو کام آئی ایس پی آر کرتی اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیفٹیننٹ جنرل آصف سلیم باجوہ کے زمانے میں آئی ایس پی آر دنیا بھر میں اسی طرح مشہور ہوئی ہے جیسے آئی ایس آئی مشہور ہوئی ہے۔ دونوں کا کام مختلف ہے مگر دونوں پاک فوج کے ادارے ہیں۔ پی آئی ڈی اور ڈی جی پی آر کے معاملات میں پروپیگنڈے کا گمان بھی ہوتا ہے۔ جسے خوش گمانی بنانے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔ آئی ایس پی آر سے جاری ہونے والے بیانات پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ متنازع باتوں میں بھی ایک محبوبیت پیدا ہو جاتی ہے۔
جرات اظہار اور صداقت اظہار کے امتزاج سے خبروں کا جو مزاج بنایاجاتا ہے وہ دلوں کو بہت اپیل کرتا ہے۔ جنرل راحیل کے بیانات میں پاکستانیت کی گونج اور خوشبو برابر برابر محسوس ہوتی ہے۔ قومی وقار اور اعتبار کو بحال کیا گیا ہے۔ پوری قوم جنرل راحیل کو قومی حمیت کا نگہبان اور ترجمان سمجھنے لگی ہے۔ آئی ایس پی آر اس حوالے سے پوری طرح جنرل صاحب کینمائندگی بلکہ قومی نمائندگی کرتی ہے۔ اب فوجی اور قومی میں کوئی فرق نہیں رہنے دیا گیا۔ اس بہت بڑی کامیابی میں قوم کا ہر فرد ان کا معترف مداح اور شامل حال ہے۔
آئی ایس پی آر کے نمائندہ رسالے ’’ہلال‘‘ کو بھی اب ایک قومی دائرے میں لے آیا گیا ہے۔ ایک بہت اچھا فیصلہ یہ ہوا ہے کہ انگریزی سیکشن کو اردو سیکشن سے الگ کر دیا گیا ہے۔ ہلال کا اردو حصہ جس شاندار طریقے سے شائع ہوتا ہے اب انگریزی حصہ بھی پوری آب و تاب سے شائع ہونے لگا ہے۔ ہلال کے نئے انچارج بریگیڈئر طاہر ہیں اور ایڈیٹر یوسف عالمگیرین ہیں۔ انگریزی کی ایڈیٹر میجر کنول کیانی ہیں۔ ایک خاتون کا میجر ہونا اور ایڈیٹر ہونا بھی بڑی بات ہے کہ وہ اب ہماری برادری میں شامل ہیں۔ ہم تو لیفٹیننٹ جنرل باجوہ کو بھی اپنی صحافی برادری اپنے قلم قبیلے کا سپاہی سمجھتے ہیں۔ انگریزی کے ’’ہلال‘‘ کے لیے ڈپٹی ایڈیٹر ماریہ خالد ہیں۔
یوسف عالمگیرین لاہور میں میرا شاگرد تھا مگر میں تب بھی اسے دوست سمجھتا تھا۔ میرے لیے تو ہر طالب علم دوست ہوتا ہے۔ یوسف بہت دوست ہے کہ تب اسے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ مزاحیہ ادب میں دلچسپی بڑھانے والا نوجوان تھا۔ اس کے دل کے نہاں خانے میں پاک فوج جائن کرنے کی آرزو بھی تڑپتی تھی۔ وہ بوجوہ کمشن تو نہ لے سکا مگر اس نے اپنے کام کے ساتھ عالمگیرین ہونے کی نسبت پکی کر لی ہے۔ ہمارے فوجی افسران اور جوان عالمگیرین ہونے پر فخر کرتے ہیں اور یہ پاک فوج میں ایک برادری ہے۔ میرے خیال میں کسی اور شخص نے اپنے نام کا حصہ عالمگیرین نہیں بنایا۔ یوسف عالمگیرین بہت معروف ادیب ہے۔ اس کے مزاج میں ایک ایسا توازن ہے جو زیرلب تبسم کو فروغ دیتا ہے۔ قہقہہ ٹھیک ہے مگر عارضی ہے۔ مسکراہٹ دائمی بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی آدمی ہر وقت قہقہے نہیں لگا سکتا مگر ہر وقت مسکرا تو سکتا ہے۔ یوسف یہ بھی کوشش کرتا ہے کہ مسکراہٹ جگمگاہٹ بن جائے۔ گڑبڑاہٹ نہ بنے۔ جب کینٹ کالج لاہور میں یوسف تھا تو اس کے ساتھیوں میں رانا ندیم اب ایک معروف اور بہادر وکیل ہے۔ جاوید اقبال ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج ہے۔ اسے بہترین جج کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ جاوید صدیق بھٹی ایک معروف شاعر اور کئی کتابوں کا مصنف ہے۔
ہلال قومی نوعیت کا شاندار رسالہ ہے۔ دیکھنے میں بھلا لگتا ہے۔ پڑھنے میں اچھا لگتا ہے۔ پورے ملک سے اچھے لکھنے والے ’’ہلال‘‘ میں شائع ہونا خوشی کی بات سمجھتے ہیں۔ مجھے بھی کبھی کبھی ہلال میں لکھنے کا افتخار حاصل ہوتا ہے۔ ہلال کے لیے لیفٹیننٹ جنرل باجوہ کی مکمل سرپرستی اور نگرانی حاصل ہے۔ یہ قطعاً مبالغے کی بات نہیں ہے کہ لمحہ موجود میں اتنا باقاعدہ اور شاندار اور اہم رسالہ کم کم ہو گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024