وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف دورہ نیویارک بھگتا کر جا چکے ہیں مگران کے دورے پر تجزیئے اور تبصرے جاری ہیں۔ اقوام متحدہ کی سرگرمیوں سے لے کر پارٹی کو منظم کرنے تک کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب نے اس دورے کی افادیت کو اجاگر کیا۔ جس مقصد کے لیئے وزیر اعظم نیویارک آئے تھے ،وہ خطاب کی صورت میں کامیاب رہا۔ خطاب میں قریبََا تمام نکات کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ خطاب سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا البتہ موقف پوری دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔لہجہ نرم تھا لیکن پیغام سخت تھا۔ بیس منٹ کی اس تقریر کی ’’پنچ لائن‘‘ یہ ایک جملہ تھا کہ’’فلسطینی اور کشمیری غیر ملکی تسلط میں ظلم کا سامنا کر رہے ہیں‘‘۔ مقبوضہ کشمیر کو فلسطین کے ساتھ کھڑا کر دینا ،دشمن کی دم پر پیر رکھنے کے مترادف ہے۔ یہ نقطہ پہلی مرتبہ دنیا کے بڑے پلیٹ فارم پر اٹھایا گیا ہے ۔اس ایک جملے نے پوری تقریر میں جان ڈال دی ۔جس نے بھی تقریر لکھی ہے ،کمال کی حکمت عملی اپنائی ہے۔اس انداز سیاست نے بھارت میں تھر تھلی مچا دی ہے جبکہ امریکہ ،اسرائیل اور اقوام متحدہ کے منہ پر بھی طمانچہ رسید ہوا ہے۔ ناقدین اس نقطے میں پھنسے ہوئے ہیں کہ تقریر کس نے لکھی اور کتنے داموں میں لکھی گئی مگر تقریر کے اثرات کس قدر پاور فل ہیں ،اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔فلسطین اور کشمیر کے مظلوم عوام کوایک صف میں کھڑا کرکے یہو دو ہنود و نصاریٰ کی مکروہ پالیسیوں کو دو ٹوک تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ خطاب نے تمام منفی پروپیگنڈا کو زائل کر دیا ہے ۔ پاکستان کے کھڑاک دار موقف اور تجاویز کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سنجیدگی اور حیرانی سے لیا گیاہے ۔وزیر اعظم پاکستان نے کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام کو آزادی اور انصاف دلانے کا مطالبہ کرکے نہ صرف ہنود و یہود کی دم پر پیر رکھ دیا بلکہ اقوام متحدہ کی عمارت پر لہراتے ہوئے فلسطین کے پرچم کو بھی سیلوٹ پیش کیا۔ وزیر اعظم نے واضح الفاظ میں مدعا بیان کیا کہ اقوام متحدہ نے جس طرح فلسطین کا پرچم لگا کر اسے ایک آزاد ریاست طور پر قبول کیا ہے اسی طرح کشمیر کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے کشمیر کو بھی آزاد ریاست کی حیثیت سے قبول کرے۔وزیر اعظم نے کہا ’’ اس عمارت کے باہر فلسطین کا پرچم لہرا رہاہے ،ہم امید کرتے ہیں کہ یہ اس جانب پہلا قدم ہے ،ہم اقوام متحدہ کے مکمل رکن کی حیثیت سے فلسطین کا خیر مقدم کرنے کے منتظر ہیں‘۔ خطاب سے متعلق یہ نقطہ بھی اٹھایا گیا کہ وزیر اعظم کو اپنے خطاب میں ملالہ یوسف زئی کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا۔ ملالہ کو فخر پاکستان کہنے سے پاکستان کو کریڈٹ ملتا ہے ۔ وزیر اعظم نے ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے میڈیا میٹنگ میں جواب دیا کہ وہ ملالہ کے وطن واپسی کے لیئے پروگرام بنا رہے ہیں اور ملالہ کا پاکستان میں پر جوش استقبال کیا جائے گا ۔ پاکستان کی اکثریت ملالہ یوسفزئی کو قبول کرنے کے لیئے تیار نہیں اور وزیر اعظم کو انہی عوام سے ووٹ لینے ہیں لہذا خطاب میں ملالہ کے فخر سے کریڈٹ تو مل جاتا لیکن پاکستانی ’’کھتے پڑ جاتے ‘‘۔ صحافیوں سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستانی میڈیا کا ایک حصہ ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہاہے ،دیگر کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔وزیر اعظم کے ان ریمارکس نے میڈیا کے دوسرے حصے کو مزید آگ بگولہ کر دیا اور انہوں نے دورہ نیویارک کو زیرو سے ضرب دے دی۔ جبکہ ناقدین و مخالفین بھی وزیر اعظم کے دورے کو ناکام قرار نہیں دے سکتے۔ بین الاقوامی میڈیا سے انٹرویوز اور اہم قیادتوں سے ملاقاتیں طے کرنے کی ذمہ داری دفتر خارجہ اور نیویارک میں پاکستانی مشن کی ہے۔ وزیر اعظم نے نیویارک میں ایک ہفتہ گزارا جبکہ امریکی صدر سے ملاقات کے لیئے حسب روایت امریکہ دوبارہ تشریف لا رہے ہیں۔وزیر اعظم کی تقریر بین الاقوامی میڈیا کو متوجہ کر نے میں کامیاب رہی ،خاص طور پر بھارتی اور اسرائیلی میڈیا تقریر ہضم نہیں کر پارہا۔
با وثوق ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے حالیہ دورہ میں وفد کی تعداد مناسب تھی۔سرکاری وفد کو مہیا کی جانے والی لیموزین کی تعداد ماضی کے ادوار کی نسبت بہت کم بتائی جا تی ہیں۔وفد کے حجم کا اندازہ لیموزین کی تعداد سے بھی لگایا جا سکتاہے۔ وزیر اعظم کومیڈیا اور کمیونٹی سے دور رکھنے کے پس پشت مشن کا عملہ اور وزیر اعظم کے مقامی اور پاکستانی مشیران کے مفت مشورے ہیں۔وزیر اعظم کی صحافیوںسے ملاقات نے منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کو مایوس کیا۔ میڈیا متوازن کردار ادا کرے تو جمہوریت کو پنپنے کا موقع مل سکتاہے ۔ سعودی عرب میں گرفتار زید حامد بھی میڈیا کے ایک حصے کے بڑے سرگرم رکن ہیں۔زید حامد کووطن واپسی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ان کی واپسی سے ان صحافیوں کا منہ بند ہو ا جو زید حامد کی گرفتاری کو ’’مکافات عمل ‘‘ قرار دے رہے تھے ۔اس دنیا میںخواہ کوئی بادشاہ ہے یا گداگر مکافات عمل سب کو بھگت کر جانا ہے۔ بعض میڈیا والے غیر متوازن رپورٹس سے نہ صرف عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ غیر جمہوری طاقتوں کو دعوت عام دیتے ہیں۔وزیر اعظم کے دورہ نیویارک کو خطاب کی حد تک دیکھا جائے تو کامیاب دورہ تھا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38